سچی دیش بھکتی
کچھ لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ گفتگو کے دوران دیش بھگتی کا ذکر ہوا۔ یہ سوال آیا کہ سچا دیش بھگت کون ہے اور اس کی پہچان کیا ہے۔
میں نے پوچھا، کیا آپ جانتے ہیں کہ ماں کو بھی اپنے بیٹے سے محبت ہوتی ہے، اور تاجر کو بھی اپنے گاہک سے محبت ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہاں، یہ تو سبھی جانتے ہیں۔ پھر میں نے پوچھا کہ کیا آپ کسی ماں کو جانتے ہیں جو اپنے بیٹے کی محبت میں روئی ہو۔ انھوں نے کہا کہ ایسی تو سبھی مائیں ہوتی ہیں۔ کسی ماں کے بیٹے پر کوئی سنکٹ پڑے تو اس کی خبر جب ماں کو ہوگی تو اس کی آنکھ سے آنسو ضرور نکل آئے گا۔ میں نے کہا کہ اچھا یہ بتایئے کہ کیا آپ ایسے تاجروں کو جانتے ہیں جو اپنے گاہک کے لیے روتے ہوں۔ انھوں نے جواب دیا کہ ایسا کوئی تاجر تو ہم کو نہیں معلوم۔
میں نے کہا کہ اب میں سوال بدل کر ایک اور بات آپ سے پوچھتا ہوں۔ آپ سب لوگ الگ الگ پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہر پارٹی کے لیڈر اپنے بارے میں دیش بھگت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ کیا آپ میں سے کوئی بتا سکتا ہے کہ اس کی پارٹی کے لیڈروں میں کون کون لیڈر ہیں جو دیش کی حالت پر روتے ہوں۔ سب نے کہا کہ ایسا کوئی لیڈر ہم کو نہیں معلوم۔ دیش بھگتی کا دعویٰ تو سبھی کرتے ہیں مگر دیش کے لیے کوئی بھی نہیں روتا۔
میں نے کہا کہ اب میرا فیصلہ سنیے۔ جو آدمی دیش کے درد میں روئے وہ سچا دیش بھگت ہے۔ اور جو آدمی صرف دیش کے نام پر تقریر کرے وہ بناوٹی دیش بھگت۔ (بمبئی کا سفر، نومبر 1993)