یہ اسلام نہیں
رپورٹ کے مطابق، امریکا کی فوج میں پندرہ ہزار مسلمان ہیں۔ یہ لوگ ایک قسم کے نفسیاتی بحران میں مبتلا ہیں۔ وہ یہ کہ وہ امریکا کی فوج میں شامل ہوکر ایک مسلم ملک عراق کے خلاف جنگ کریں یا نہ کریں۔ بتایاگیا ہے کہ ایک امریکی مسلمان جس کا نام اکبر تھااور کویت میں امریکی فوج کے ساتھ تھا، اس نے ذہنی پریشانی کے عالم میں امریکی فوجیوں کے ایک کیمپ پر گرینیڈ سے حملہ کردیا اور چھ امریکیوں کو مار ڈالا۔
میرے نزدیک اس معاملہ میں امریکی مسلمانوں کے لیے جوچوائس ہے، وہ یہ نہیں ہے کہ وہ امریکی فوج میں شامل ہوکر مسلم ملک کے خلاف لڑیں یا نہ لڑیں۔ حقیقی چوائس صرف یہ ہے کہ وہ امریکی شہریت کو قبول کریں یا شہریت کو چھوڑکر امریکا سے باہر آجائیں۔ میرے نزدیک یہ ایک منافقانہ (double standard) روش ہے کہ امریکا کی شہریت لے کر وہاں کی مادی سہولتوں سے فائدہ اٹھایا جائے اور جب امریکا کو کوئی قومی لڑائی پیش آئے تو اس لڑائی میں امریکا کا ساتھ نہ دیا جائے۔
آج کل اُمّہ کا جو تصور مسلمانوں میں پھیلاہوا ہے، مجھے اس سے اتفاق نہیں۔میرے نزدیک مسلمان اپنے مذہب کے اعتبار سے عالمی امت ہیں۔ مگر وطن کے اعتبار سے ان کی وفاداریاں اسی طرح اپنے وطن کے ساتھ ہونی چاہئیں، جس طرح دوسری قوموں کے لوگ اپنے مذہب کے اعتبار سے الگ تشخص رکھنے کے باوجود وطنی معاملات میں بقیہ اہل وطن کے ساتھ ہوتے ہیں۔(ڈائری، 26مارچ2003)