ایک انٹرویو

سوال : مولانا، بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ہندوستان کے اندر قومیتوں کے تضادات آخرکار اس کو ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے دوچار کر دیں گے۔آپ کا اس تجزیہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟

جواب : تضادات تو ہر سوسائٹی میں ہوتے ہیں۔بے تضاد سوسائٹی کوئی بنی نہیں۔مسلم سوسائٹی بھی تضادات سے پاک نہیں رہ سکتی۔میراخیال ہے کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ روس کی طرح ہندوستان بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا، وہ مغالطے میں مبتلا ہیں۔روس کے ٹوٹنے کی وجہ یہ ہے کہ اس نے عوام کو بے روٹی کر دیا۔میں خود روس گیا ہوں۔عوام بھوکوں مر رہے ہیں۔روس نے اپنے سارے وسائل اسلحہ سازی پر لگا دیے اور عوام کو بے روٹی کر دیا۔لیکن انڈیا میں ایسا نہیں ہوا کہ حکومت نے عوام کی روٹی چھین لی ہو۔اگر آپ عوام سے روٹی چھین لیں گے تو پھر بغاوت ہوگی۔اسلامی حکومت ایسا کرے گی تو اس کے خلاف بھی بغاوت ہوگی۔انڈیا میں لوگوں کو آزادی ہے۔ان کے پاس کھیت ہیں، وہ پیدا کرتے ہیں اور کھاتے ہیں۔وہاں بغاوت کس طرح ہوگی؟باقی جھگڑے کہاں نہیں ہوتے۔ جھگڑے تو ہمیشہ رہے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔

سوال : بابری مسجد کے حوالے سے آپ کی رائے عام علما سے مختلف رہی۔وہاں کے کئی علما کو آپ سے شکایت بھی ہے کہ آپ ان کے موقف کی طرف داری نہیں کرتے؟

جواب : بابری مسجد کے بارے میں میری رائے عام مسلمانوں کی رائے سے مختلف نہیں۔میں اس الزام کی تردید کرتا ہوں۔میرا اختلاف صرف تدبیر کا اختلاف ہے۔ان کا خیال تھا کہ معاملہ کو سڑکوں پر لایا جائے۔یہ سڑکوں پرحل ہوگا،جلوس سے حل ہوگا،جلسوں سے حل ہوگا،گولی سے حل ہوگا۔میں سمجھتا تھا کہ ان طریقوں سے نہیں،بلکہ پرامن طریقے سے حل ہوگا۔آپ نے دیکھا کہ آخرکار ان کو ناکامی ہوئی۔

سوال : کیا یہ شرعی مسئلہ ہے کہ جس جگہ ایک مرتبہ مسجد بن جائے وہاں قیامت تک کوئی اور تعمیر نہیں ہو سکتی؟

جواب :  ہماری فقہ میں ایسا ہی لکھا ہے۔

سوال : قرآن و سنت کی روشنی میں مسئلہ کیا ہے؟

جواب : بس اتنا ہی کافی ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں کہوںگا۔

سوال : بعض حضرات نے قومی اور اصلی اسلام کے خانے بنا رکھے ہیں۔اور ان کے نزدیک قومی خدمت،اسلامی خدمت قرار نہیں دی جا سکتی۔کیا مسلمانوں کے قومی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنا غیر اسلامی ہے؟

جواب : بالکل اسلامی ہے۔صرف یہ ہے کہ تقسیم کار ہونی چاہیے۔کچھ لوگ مسلمانوں کوتعلیم میں آگے بڑھانے کی کوشش کریں،کچھ فکری چیلنجوں کامقابلہ کریں،کچھ مسلمانوں کوانڈسٹری میں ترقی دیں۔یہ عین اسلامی کام ہوگا۔میں صرف ایک چیز کا مخالف ہوں،حکومتوں سے ٹکراؤ۔اس کو میں زہر سمجھتا ہوں کیونکہ یہ سارے کام بگاڑ دیتا ہے۔

سوال : امیر تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد سے آپ کے خوشگوار مراسم یک بیک ناخوشگوار کیوں کر ہو گئے؟ اب سنا ہے کہ ترک ملاقات تک نوبت آن پہنچی ہے۔حالانکہ چند سال قبل انھوں نے محاضرات قرآنی میں آپ کو خاص طور پر مدعو کیا تھا؟

جواب :  ڈاکٹر صاحب مجھ سے کیوں ناراض ہیں، یہ ان کو معلوم ہوگا۔میں نے تو ’’الرسالہ‘‘ میں ڈاکٹر صاحب کے خلاف کبھی كچھ نہیں لکھا اور میں ان کے کام کی قدر کرتا ہوں،جو کچھ بھی ہے۔لیکن اختلاف اپنی جگہ، وہ جس اسلامی انقلاب کا ذکر کرتے ہیں اور جو بیعت انھوںنے اپنے پیروکاروں سے لے رکھی ہے،میں اسے صحیح نہیں سمجھتا۔

سوال : پاکستان میں ان دنوں علما کا ایک طبقہ جمہوریت کو ترک کرکے خلافت کا علمبردار بن گیا ہے۔اس کے لیے باقاعدہ فورم بنا دیے گئے ہیں۔کیا اسلام میںجمہوریت مبغوض ہے؟ اور یہ کہ جمہوریت اور خلافت میں کیا حقیقی فرق ہے؟

جواب : دیکھیے، جمہوریت نام ہے ایک حکومتی نظام کا۔میں اس کو اسلام کے مطابق سمجھتا ہوں اور خلافت بھی عین جمہوری ہے۔اس کو چھوڑ دیجیے کہ جمہوری نمائندے قانون سازی بھی کرتے ہیں، وہاں تک نہ جائیے۔لیکن یہ کہ افراد حکومت کس طرح منتخب ہوں،جمہوریت اس کا نام ہے۔ اسلام کا نظام خلافت عین جمہوری تھا۔یہ بے کار بحثیں ہیں اور یہ ان لوگوں نے شروع کر رکھی ہیں جنہوںنے نظام کو نشانہ بنا رکھا ہے اور فرد سازی کے کام کو عملاً ترک کر دیا ہے۔

سوال : آپ نے مولانا مودودی مرحوم کی فکر پر یہ اعتراض کیا کہ اس میں دین کے اصل محور كو بدل دیا گیا ہے۔اور سیاست جو کہ دین کا ایک تقاضا ہے اسے کل دین قرار دے دیا گیا۔آپ نے اس کو ’’تعبیر کی غلطی‘‘ قرار دیا اور ایک متوازن فکر پیش کرنے کا دعویٰ کیا۔لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ رد عمل میں آپ نے ایک دوسری انتہا کو چھو لیا اور دین کی ایک ایسی تعبیر کر ڈالی جس کو قبول کر لینے کے بعد ایک مسلمان امور مملکت یا امور سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہتا۔

جواب : جن لوگوں نے مجھ پر یہ اعتراض کیا ہے، ان کو چاہیے کہ وہ اپنے دلائل بھی دیں۔یہ ایک مجرد بیان ہے کہ میں ایک دوسری انتہا تک پہنچ گیا ہوں۔میں نے ایک فکر پر اعتراض کیا، اس کی غلطی واضح کرنے کے لیے دلائل دیے اور اس کے متوازی ایک دوسرا فکر پیش کیا۔اب میرے فکر کو غلط ثابت کرنے کے لیے دلائل کی ضرورت ہے۔میں جانتا ہوں جو صاحب یہ اعتراض کرتے ہیں،لیکن انھوںنے کوئی دلیل تو دی نہیں۔بس ایک بیان دے دیا ہے۔ اب ان کے بیان پر کیا بیان دیا جائے۔

سوال :  مولانا، بعض لوگ آپ پر طرح طرح کے الزامات عائد کرتے ہیں۔یہ کہ کرنل معمرقذافی آپ کی مالی امداد کرتے ہیں،یہ کہ حکومت بھارت آپ کی سرپرستی کرتی ہے،یہ کہ آپ کا’’الرسالہ‘‘ حکومت ہزاروں کی تعداد میں خرید کر مفت تقسیم کرتی ہے؟

جواب :  یہ صد فیصد جھوٹ ہے۔آپ جس سطح پر بھی جانچ کر لیں۔آپ چاہیں تو میرے اکاؤنٹ کو چیک کر لیں، میرے پاس جو کچھ ہے Accounted Money ہے۔جس کا باقاعدہ آڈٹ کیا جاتا ہے۔حسابات میں لکھا ہوا ہے کہ میں نے مکان کہاں سے خریدا اور گاڑی کیسے خریدی۔آپ نے لیبیا کی بات کی ہے۔کیا ’’الرسالہ‘‘ میں قذافی کی تبلیغ ہوتی ہے؟ قذافی لیبیا کا ڈکٹیٹر ہے اور میں صبر اوراعراض کی بات کرتا ہوں۔کیا قذافی مجھے اس لیے پیسہ دےگا کہ میں اس کے الٹ تبلیغ کروں؟اگر کوئی میری اس دلیل سے مطمئن نہ ہو تو میں مباہلہ کے لیے تیار ہوں۔جن صاحب کو اعتراض ہے، وہ مسجد میں میرے ساتھ آ جائیں۔میں یہ کہنے کے لیے تیار ہوں جس شخص نے قذافی سے پیسہ لیا، اس پر اللہ کی لعنت ہو، وہ اللہ کی رحمت سے محروم ہوجائے،اس کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت نہ ملے،حوض کوثر پرحضور اس کو پانی نہ پلائیں۔میں بھی یہ کہتا ہوں اور وہ صاحب بھی یہ کہیں۔

ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ میں وہاں کانفرنسوں میں جاتا ہوں۔ایک مرتبہ ایک عرب نے یہی اعتراض کیا تومیں نے ان کو وہ تقریریں دکھا دیں جو میں نے وہاں کی تھیں،چونکہ کانفرنسوں کے بعد ایسی تقریریں شائع کر دی جاتی ہیں۔ان تقریروں میں میرا موضوع وہی ہوتا ہے جس کا ’’الرسالہ‘‘ میں ذکر ہوتا رہتا ہے۔ کوئی ثابت کر دے کہ میںنے کبھی قذافی کی تعریف کی ہو یا اس کے حق میں تقریر کی ہو؟

سوال : اور انڈیا کی سرپرستی کا معاملہ کیاہے؟

جواب : یہ بھی جھوٹ ہے۔کوئی ثابت کرے کہ حکومتِ بھارت میرا پرچہ اس طرح خریدتی ہے۔میں انڈیا میں رہتا ہوں،لیکن میںآج تک حکومت کے کسی آدمی سے ملاقات کرنے نہیں گیا۔کسی گورنر، وزیر، صدر کو نہیں ملا۔حالانکہ ان سے ملاقات میرے لیے مشکل نہیں۔یہ صحیح ہے کہ حکومت کے لوگ میرا پرچہ پڑھتے ہیں،جس طرح دوسرے پرچے پڑھتے ہیں۔لیکن حکومت سے میرا کوئی تعلق نہیں اور نہ میں نے حکومت سے کوئی پیسہ لیا ہے۔اگر کوئی یہ ثابت کر دے تو میں لکھ کر دینے کو تیار ہوں کہ میں اپنے مرکز کو آگ لگا دوں گا۔جی ہاں، اگر کوئی یہ ثابت کر دے کہ میں حکومت سے امداد لیتا ہوں تو میں اپنے مرکز کوخود آگ لگا دوں گا۔اس کے لیے بھی میں مباہلہ کو تیار ہوں۔

سوال : آپ کی کوٹھی، کار کا ذکر بھی ہوتا رہتا ہے؟

جواب : جیسا کہ میں نے عرض کیا، میرے پاسAccounted Moneyہے۔ میرے اکاؤنٹ کا آڈٹ بھی وہی صاحب کرتے ہیں جو جماعت اسلامی کے آڈیٹر ہیں،مقصود عالم صاحب۔ وہ میرے اور جماعت اسلامی ہند کے حسابات دیکھتے ہیں۔آپ جانتے ہیں کہ آڈیٹر کو سب معلوم ہوتا ہے۔ جن کو شبہ ہے ان صاحب سے معلوم کر لے۔( بشکریہ زندگی ،لاہور، ستمبر 1991)

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom