ہجرتِ رسول
رسول اللہ کی بعثت 610 عیسوی میں ہوئی۔ تیرہ سال کے بعد مکہ سے ہجرت کرکے آپ مدینہ گئے۔ یہ ہجرت پیغمبر اسلام کی ایک سنت ہے۔ اس سنت کو اگر لفظ بدل کر کہیں تو وہ طریقِ کار کی ری پلاننگ تھی۔ یعنی مقصد کے حصول کے لیے ناکام پلاننگ کو ترک کرکےنئی پلاننگ کرنا۔ یہ پلاننگ اتنی کامیاب ہوئی کہ تھوڑی مدت کے بعد آپ کا مشن پورے عرب میں پھیل گیا۔ اپنے مشن کے لیے پہلی پلاننگ رسول اللہ نے مکہ کے حالات کو دیکھ کر کی تھی۔ لیکن مکہ کے حالات میں رسول اللہ نے جو پلاننگ کی تھی، وہ اہل قریش کی سخت مخالفت کا شکار ہو گئی ۔ اس کے بعد آپ نے مدینہ کی بنیاد پر دوسری پلاننگ کی۔ اس دوسری پلاننگ کے بعد بھی بظاہر کچھ پرابلم پیش آئے۔ لیکن بہت جلد یہ پلاننگ کامیاب ثابت ہوئی، اور اسلام مختصر مدت میں فتح مبین (الفتح،48:1) تک پہنچ گیا۔
جو لوگ آپ کے ساتھ اپنے وطن کو چھوڑ کر مدینہ پہنچے، عام طور پر ان کو مہاجر اور انصار کی اصطلاحوں میں بیان کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر ہم سیکولر زبان میں بات کریں تو وہ مہاجر اہلِ ایمان کا ڈائسپورا تھے، اور انصار وہ لوگ تھے جنہوں نے اس ڈائسپورا (diaspora) کی مدد کی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بڑے بڑے کارنامے ان لوگوں نے انجام دیے جو ڈائسپورا سے تعلق رکھتے تھے یا جنہوں نے ان کا ساتھ دیا۔ مثلاً، امریکا ان افراد کی محنت کا نتیجہ ہے جوڈائسپورا تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تارکینِ وطن اپنے ملک کو چھوڑ کر کسی نئے علاقے میں بستے ہیں، تو وہ اُن تکلفانہ سوچ سے آزاد ہو تے ہیں، جو سماجی روایات کے نام پر زمانے کے ساتھ آگے بڑھنے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ نیا ماحول ان کے اندر ایک نیا جوش اور عزم پیداکردیتا ہے۔وہ ہر کام پوری لگن کے ساتھ کرتے ہیں، یہاں تک کہ کامیابی کی منزل تک پہنچ جائیں۔
اسی طرح کا ایک واقعہ اسلامی ہجرت کے بعد مدینہ میں پیش آیا۔ہجرت کے بعدنئے مدینہ میںایک کثیر تعداد ان لوگوں کی ہوگئی، جو اپنے وطن کو چھوڑ کر یہاں آباد ہوئے تھے۔ ان کے اندر نیا عزم و حوصلہ تھا۔اس بنا پر یوں لگتا تھا کہ نیا مدینہ ہیروؤں کی بستی بن گیا ہے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ جو بستی پہلے سادہ طور پر یثرب تھی، وہ انسانی تاریخ میں ایک نئے آغاز کا سرچشمہ بن گئی ۔