قرآن کی چند آیتیں

قرآن کی سورہ آل عمران کی چند آیتوں کا ترجمہ یہ ہے:

 آسمانوں کی پیدائش میں اوررات دن کے باری باری آنےمیں عقل والوں کی لیے بہت نشانیاں ہیں(لَآياتٍ لِأُولِي الْأَلْبابِ)۔ جو کھڑ ےاور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر (قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ) اللہ کو یاد کرتے ہیں ۔ اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں فکر کرتے رہتے ہیں۔اے ہمارے رب تونے یہ سب بے مقصد نہیں بنا یا، تو پاک ہے۔پس توہم کو آگ کے عذاب سے بچا (مَا خَلَقْتَ هَذَا باطِلاً سُبْحانَكَ فَقِنا عَذابَ النَّارِ)۔ اے ہمارے رب تو نے جس کو آگ میں ڈالا اس کو تو نے واقعی رسواکردیا ۔ اور ظالموں کا کوئی مدد گا ر نہیں ۔اے ہمارے رب ہم نے ایک پکارنے والے کوسنا جوایمان کی طرف پکار رہا تھا کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ، پس ہم ایمان لائے(إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا)۔ اے ہمارے رب ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہماری برائیوں کو تو ہم سے دور کردے اورہماراخاتمہ نیک لوگوں کے ساتھ کر(تَوَفَّنا مَعَ الْأَبْرارِ)۔ اے ہمارے رب تو نےجو وعدے اپنے رسولوں کے ذریعہ ہم سے کیے ہیں، ان کو تو ہمارے ساتھ پورا کر (آتِنا مَا وَعَدْتَنا عَلى رُسُلِكَ) اور قیامت کے دن تو ہم کو رسوائی میں نہ ڈال۔بے شک تو اپنے وعدے کے خلاف کرنے والا نہیں ہے۔ ان کے ر ب نے ان کی دعا قبول فرمائی کہ میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں خواہ وہ مرد ہو یا عورت (أَنِّي لا أُضِيعُ عَمَلَ عامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثى)۔ تم سب ایک دوسرے کی جنس سے ہو، پس جن لوگوں نے ہجرت کی اور جو اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میری را ہ میں شامل ہوگئے اور لڑے اور مارے گئے(فَالَّذِينَ هاجَرُوا وَأُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأُوذُوا فِي سَبِيلِي وَقاتَلُوا وَقُتِلُوا)، میں ضرور ان کی خطائیں ان سے دور کر دوں گا اور ان کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا  جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ۔ یہ ان کا بدلہ ہے۔ اللہ کے یہا ں او ر بہترین بدلہ اللہ ہی کےپاس ہے۔ (3:190-195)

قرآن کی یہ آیتیں فہم دین کے لیے بہت زیادہ اہم ہیں۔ ان آیتوں میں جن نکات ( points) کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ان کو یہا ں مختصر طوپر نمبر واردرج کیا جارہا ہے

1۔ ان آیا ت سے پہلی بات یہ معلوم ہوتی ہےکہ اللہ کی معرفت صرف ان لوگوں کو ملتی ہے، جواپنی عقل (reason) کو استعمال کریں (لَآياتٍ لِأُولِي الْأَلْبابِ)۔آیت میں اولوالالباب کا لفظ ہے۔ اس کا مطلب ہے۔ اصحاب عقل یعنی جو لوگ اپنی عقل کو استعمال کرکے زمین وآسمان کی چیزوں (creation ) میں غور کریں۔ گویا کہ معرفت الٰہی کسی پر اسرارطر یقے سے حاصل نہیں ہوتی، معرفت کے حصول کا ذریعہ صرف ایک ہے،اور وہ ہے عقل کو استعمال کرکے تخلیقی مظاہر میں غور وفکر کرنا ۔

2۔دوسر ی بات یہ معلوم ہوتی ہےکہ جب کسی انسان کو خدا کی معرفت(realization) حاصل ہوتی ہے تو وہ اس کی پوری شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے۔ وہ ہر حال میں اس کے بار ےمیں سوچتا رہتا ہے(قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ)۔ انسان ایک فکری مخلوق ہے۔کہا جاتاہےکہ انسان ایک سوچنے والا حیوان (thinking animal)ہے۔ انسان کی سوچ ہی وہ عمل ہے، جواس کی شخصیت کی تعمیر کرتی ہے۔ ربانی سوچ سےربانی انسان بنتا ہےاور غیر ربانی سوچ سے غیر ربانی انسان ۔

3۔ اس معرفت کانتیجہ یہ ہوتا ہےکہ وہ زندگی اور کائنات کی معنویت کودریافت کر لیتا ہے۔ وہ یہ جان لیتا ہےکہ خدا کے خالق ہونے کا یہ لازمی نتیجہ ہونا چاہیے کہ آدمی خداکے سامنےجواب دہ ہو (مَا خَلَقْتَ هَذَا باطِلاً سُبْحانَكَ فَقِنا عَذابَ النَّارِ)۔تخلیق اور جواب دہی (accountability) دونوں اس کو ایک حقیقت کے دو حصے نظر آنے لگتے ہیں۔ جس خدانے انسان کوپیدا کیا ہے۔ وہ لازماََ ایک دن انسان کامحاسبہ کرے گا اور اس کےعمل کے مطابق ، اس کے لیے جزاوسزاکا فیصلہ کرے گا۔

4۔ اس معرفت کے نتیجے میں انسان کے اندر جوشعور پیدا ہوتا ہے۔ وہ اس بات کا ضامن ہوتا ہےکہ وہ حق کے داعی کو پہچان لے (إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا)۔ حق کے داعی کو نہ پہچاننے کا واحد سبب یہ ہےکہ آدمی کنڈ یشننگ کا شکار ہو۔ معرفت آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ کنڈیشننگ سے باہر آکر چیزوں کو ویساہی دیکھ سکے جیسا کہ فی الحقیقت وہ ہیں۔ یہ صلاحیت آدمی کواس قابل بنا دیتی ہےکہ وہ تعصبات ِ ذہنی سے آزاد ہوکر کسی انسان کو پہچان لے۔ اس طرح، حق کی معرفت آدمی کے لیے حق کے داعی کی معرفت کا یقینی ذریعہ بن جاتی ہے۔

5۔ جب ایک شخص کو معرفت والی زندگی حاصل ہوتی ہےتو اس کے بعد اس کا وہ حال ہوتا ہے جس کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے  الدُّنْيَا ‌سِجْنُ ‌الْمُؤْمِنِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2956)۔ یعنی، دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے۔ ایسا اس لیے ہوتاہےکہ اس دنیا میں عارفِ حق کو غیرعارفین کے درمیان زندگی گزارنا پڑتاہے۔ خدا پرست کو غیر خدا پرستوں کے ساتھ رہنا پڑتا ہے۔ آخرت پسند انسان کو ان لوگوں کے ساتھ رہنا پڑتا ہے جن کا کنسرن صرف دنیا ہوتی ہے۔اس صورتِ حال کی بنا پر ایک سچے مومن کو دنیا ایک قید خانہ کے مانند نظر آنے لگتی ہے۔ اس کی بہترین تمنا یہ ہوتی ہے کہ اس کو عارفینِ حق کے معاشرے میں رہنا نصیب ہو ۔ اسی معاشرے کا نام جنت ہے۔ جب کسی شخص کو معرفت حاصل ہوتی ہےتو وہ عین اس کےفطری تقاضے کے مطابق، جنت کا طالب بن جاتاہے۔ یہی مطلب ہے تَوَفَّنا مَعَ الْأَبْرارِکا ،یعنی ہمارا خاتمہ نیک لوگوں کے ساتھ کر۔

آتِنا مَا وَعَدْتَنا عَلى رُسُلِك َ  —ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہےکہ پیغمبر وں کے ساتھ اللہ کا جو معاملہ ہوتا ہے۔ اس میں پیغمبر کے سچے امتی بھی برابر کے شریک ہیں، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ یہ بلاشبہ بہت بڑی بشارت ہے۔ تا ہم خدا کی یہ عنایت صرف ان لوگوں کے لیے مقدر ہے، جو کسی شرط کے بغیر پیغمبر کا اعتراف کریں اور کسی شرط کے بغیر اپنی عملی زندگی میں اس کی پیروی کریں۔ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت جس طرح پیغمبر کے معاصرین کے لیے ہے، اسی طرح اس سنت کا تعلق بعد کے دور کے اُن لوگوں سے بھی ہے جو پیغمبر کے مشن کوزندہ  کر نے کے لیے اٹھیں، اورساتھ دینے والے ان کا ساتھ دیں ۔

7۔اگلی آیت میں عامل کے عمل کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ حتمی وعدہ ہےکہ وہ سچے عامل کے عمل کو کبھی ضائع نہیں کرتا ۔یہ سنت مردوں کےلیے بھی ہےاور عورتوں کےلیے بھی (أَنِّي لا أُضِيعُ عَمَلَ عامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثى)۔اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ایک سچے مومن کےلیے بلاشبہ سب سے بڑاسہاراہے۔ حالات خواہ کتنے ہی سخت ہوں۔ اگر وہ حقیقتاًاللہ کےبتائے ہوئے راستے پر ہےتو اللہ کی طرف سے اس کےلیے ابدی طوپر یہ بشارت ہےکہ  إِنَّ اللهَ ‌مَعَ ‌الَّذِينَ ‌اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ (16:128)۔ یعنی، بیشک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو پرہیزگار ہیں اور جو نیکی کرنے والے ہیں۔

8۔ اس کے بعد قرآن میں چند چیزوں کا ذکر ہے ہجرت، وطن سے اخراج ،اللہ کے راستے میں ستایاجانا اور قتال(فَالَّذِينَ هاجَرُوا وَأُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأُوذُوا فِي سَبِيلِي وَقاتَلُوا وَقُتِلُوا)۔ یہ چاروںشرطیں لازماََ لفظی طوپر مطلوب نہیں ہیں۔ بلکہ وہ معنوی طوپر مطلوب ہیں۔ یعنی اس کا مطلب یہ نہیں ہےکہ اہلِ ایمان کے ساتھ ہر زمانے میں شکل کےاعتبارسےعین ایساہی واقعہ پیش آئے گا کہ ان کو اپناوطن  چھوڑ نا پڑے، وہ اپنے گھروں سےنکالےجائیں،ان کو جسمانی طور پر ستایا جائے ، ان کومسلح جنگ کرناپڑے۔یہ سب شرطیں حقیقی نہیں ہیں ،بلکہ وہ اضافی ہیں۔

 قدیم قبائلی دور (tribal-age) میں یہ واقعات شکلا ًپیش آئے ،لیکن موجودہ زمانہ آزادی اور جمہوریت کا زمانہ ہے۔ اب انسانی حقوق (human rights)کو عالمی طورپر مان لیا گیا ہے۔ اب بھی سچے اہل ایمان کے ساتھ یہ تجربات پیش آئیں گے ،مگر وہ بہ اعتبارِ حقیقت (spirit)ہوں گے، نہ کہ باعتبارِ صورت ۔

✱✱✱✱✱✱

موت کا سبق

موت ہر انسان پر اچانک آتی ہے۔ اس بنا پر انسان مجبور ہے کہ موت کے معاملے میں غیر یقینی حالت میں جیے۔ یہ غیر یقینی حالت صرف موت کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ زندگی کے ہر پہلو سے متعلق ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ فطرت کے اس قانون کو قبول کرے، اور اس کے مطابق اپنی زندگی کی پلاننگ کرے۔ ورنہ وہ اس معاملے میں اپنے آپ کو ابدی نقصان سے بچا نہیں سکتا۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom