خدا کو پانا
اس وقت میری گفتگو کا موضوع خدا اور خدا کی وحدت ہے۔ یہ موضوع بلاشبہ میرا سب سے زیادہ پسندیدہ موضوع ہے۔ زمین و آسمان گواہ ہیں کہ میں سب سے زیادہ توحید کے موضوع پر سوچتا ہوں۔ میں سب سے زیادہ خدا کی باتوں میں گم رہتا ہوں ۔
مگر قرآن میں آیا ہے کہ :إِذا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ (8:2)۔ یعنی، جب اللہ کا ذکر آتا ہے تو ان کے دل دہل اٹھتے ہیں۔ اور فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسى صَعِقاً (7:143)۔ یعنی، جب اللہ نے پہاڑ پر اپنی تجلی کی تو اس کو ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ بے ہوش ہو کر گر پڑا۔
خدا تو وہ ہے جہاں زبانیں بند ہو جاتی ہیں ، پھر خدا کے بارے میں بولا جائے تو کیا بولا جائے ۔ خدا تو وہ ہے جس کے سامنے آتے ہی نگا ہیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ پھر اس کے مشاہدہ کو بیان کیا جائے تو کس طرح بیان کیا جائے۔ خدا تو وہ ہے کہ جب وہ تجلی کرتا ہے تو جہاں وہ اپنی تجلی کر تا ہے اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے (الاعراف، 7:143)، پھر کہاں سے وہ دل لایا جائے جو خدا جیسی ہستی کا چرچا کر سکے۔
خدا میرے لیے صرف ایک رسمی عقیدہ نہیں ، خدا میری دریافت ہے۔ (احسان کے درجہ میں)خدا کو میں نے دیکھا ہے ۔ خدا کو میں نے چھوا ہے ۔ بخدا میری مثال صحرائے سینا کے اس پہاڑ کی ہے جس پر خدا اترا اور اس نے اس کی ہستی کے ریزے ریزے کر دیے ۔ ایسے ایک انسان کے لیے خدا پر بولنا کوئی آسان کام نہیں۔ ایسے ایک انسان کے لیے خدا کی حمد اور تعریف کر نی عام تقریروں کی طرح صرف ایک تقریر کر دینے کی بات نہیں ۔
غالباً 25 سال پہلے کی بات ہے۔ اس وقت میں اعظم گڑھ (یوپی) میں تھا۔ وہاں ایک صاحب (شاہ نصیر احمد) نے مجھ سے پوچھا : ’’کیا انسان خدا کو دیکھ سکتا ہے ‘‘ ۔میری زبان سے فوراً یہ الفاظ نکلے : ’’کیا آپ نے ابھی تک خدا کو نہیں دیکھا ‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا سورج اور چاند سے زیادہ نمایاں ہے۔ یہ آنکھ اسی لیے دی گئی ہے کہ وہ خدا کو دیکھے۔ یہ دماغ اسی لیے دیا گیا ہے کہ وہ خدا کا ادر اک کرے ۔ بخدا وہ آنکھ بے نور ہے جس کو خدا دکھائی نہیں دیتا۔ وہ انسان بے دماغ ہے جو یہ کہتا ہے کہ اس نے خدا کو نہیں پایا ،یا یہ کہ خداکو پایا نہیں جا سکتا۔
خدا بلاشبہ اتنا بڑا ہے کہ وہ ہمارے مشاہدہ میں نہیں سماتا۔ مگر بلاشبہ وہ تمام چیزوں سے زیادہ ہم سے قریب ہے ۔ موجودہ دنیا میں ہم خدا کو اس کی ذات میں نہیں دیکھ سکتے۔ مگر خدا کو اس کی صفات میں ہم ہر جگہ دیکھتے ہیں اور ہر وقت دیکھ سکتے ہیں۔ موجودہ دنیا میں یہی خدا کو دیکھنا ہے ، یہی خدا کو پانا ہے۔
کار کو کارخانہ کا انجینئر بناتا ہے۔ انجینئر کار میں ہر وقت بیٹھا ہوا نہیں ہوتا۔ مگر جس شخص نے کار میں صرف کار کو دیکھا اس نے کچھ نہیں دیکھا۔ کار کو دیکھنے والا وہ ہے جو کار کو دیکھتے ہی اس کے انجینئر کو بھی دیکھ لے ۔ اسی طرح انسان خدا کو بھی دیکھ سکتا ہے۔ اگر آپ نے سورج میں صرف سورج کو دیکھا تو آپ نے کچھ نہیں دیکھا ۔ سورج کو دیکھنے والا وہ ہے جس نے سورج میں خدا کے روشن چہرہ کو دیکھ لیا ہو۔ جس نے پہاڑ میں صرف پہاڑ کو دیکھا اس نے کچھ نہیں دیکھا۔ پہاڑ کو دیکھنے والا وہ ہے جس نے پہاڑ میں خدا کی عظمتوں کو پا لیا ہو۔ خدا کوئی دور کی چیز نہیں۔ وہ آسمان کی وسعتوں میں ظاہر ہوا ہے ۔ وہ چڑیوں کے چہچہے میں بول رہا ہے۔ وہ پھولوں کی لطافت میں مسکرا رہا ہے۔ وہ ہواؤں کے جھونکے میں آپ کو چھو رہا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا ہر طرف اور ہر جگہ ہے۔ وہ ہم سے بالکل الگ ہے ، اسی کے ساتھ وہ ہم سے انتہائی قریب ہے۔ پھر بھی جو انسان خدا کو نہ دیکھے وہ اندھا ہے۔ اس کے با وجود جو انسان خدا کو نہ پائے وہ محرومی کی اس انتہا پر ہے جس کے آگے محرومی کا کوئی درجہ نہیں۔
خدا کو پانا ایسا ہی ہے جیسے اپنے آپ کو پانا۔ کون ہے جو اپنے آپ کو پائے ہوئے نہ ہو۔ اس لیے کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہو سکتا جو خدا کو پانا چاہے پھر بھی وہ اس کو نہ پاسکے ۔ جو شخص اپنی آنکھیں بند کرلے وہ سورج کو نہیں دیکھ سکتا۔ ایسے شخص کے چاروں طرف سورج اپنی بے پناہ روشنی کے ساتھ موجود ہو گا مگر وہ سورج کو نہیں دیکھے گا۔ اسی طرح خدا ہر لمحہ آدمی کے چاروں طرف موجود ہے۔ مگر جس شخص نے اپنی بصیرت کو دھندلا کر چکا ہو وہ کبھی خدا کو دیکھنے کی سعادت حاصل نہیں کر سکتا۔
(تقریر بمقام بھوپال ،19 اپریل 1986)