جدید انسان کی تلاش
زیان فرانسس ریویل (Jean-Francois Revel, 1924-2006)کی کتاب مارکس یا مسیح کے بغیر (Without Marx or Jesus ) فرانس میں 1970میں شائع ہوئی۔ کتاب میں مصنف نے بوڈیلیٹر کا قول نقل کیا ہے جس نے تجویز کیا تھا کہ انسانی حقوق کے اعلان میں دو مزید حقوق شامل کیے جائیں۔ ایک، آپ اپنی تردید کرنے کا حق ۔ دوسرے کنارہ کشی کا حق ۔ امریکی نوجوان آج اسی انقلاب کی طرف جا رہا ہے۔ ایک طرف وہ ایک ایسے سماج کو رد کر رہا ہے جس کا محرک صرف منافع ہو اور جس پر صرف اقتصادی امور کا غلبہ ہو۔ دوسری طرف اسے روایتی مذاہب پر بھی اطمینان نہیں ۔ کیوں کہ اس کے نزدیک بہترین مذہب وہ ہے جسے آدمی خود دریافت کرے ۔
امریکی نوجوانوں میں ابھرنے والے رجحانات کے چند نمایاں پہلو یہ ہیں :اخلاقی قدروں کی طرف واپسی کا رجحان، محض اقتصادی اور تکنیکی سماجی مقاصد کو رد کرنا، اور قدرتی ماحول کو تجارتی مفاد سے زیادہ اہمیت دینا۔ مصنف کے مطابق،’’ آج امریکا میں ایک نیا انقلاب جنم لے رہا ہے، جو انسانیت کے لیے نجات کی راہ پیش کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مبني برٹیکنالوجی تہذیب کو منزل سمجھنے کے بجائے اسے ایک ذریعہ کے طور پر ليا جائے۔ اور چونکہ نہ تو اس تہذیب کو مکمل طور پر ترک کرنا ہمارے لیے فائدہ مند ہے، اور نہ ہی اس کا جوں کا توں برقرار رکھنا مفید، اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اندروه صلاحیت پیدا کریںجس سے ہم اس تہذیب کو مکمل طور پر ترک کرنے کے بجائےاسے ایک نئی اور بہتر صورت دے سکیں۔‘‘
Today in America a new revolution is rising. It is the revolution of our time. It is the only revolution that involves radical, moral, and practical opposition to the spirit of nationalism. It is the only revolution that, to that opposition, joins culture, economic and technological power, and a total affirmation of liberty for all in place of archaic prohibitions. It, therefore offers the only possible escape for mankind today: the acceptance of technological civilization as a means and not as an end, and—since we cannot be saved either by the destruction of the civilization or by its continuation—the development of the ability to reshape that civilization without annihilating it. (p. 242)
یہ ذہن جس کی نمائندگی اس کتاب میں کی گئی ہے ایک ایسے آدمی کی بے چینی کی طرح ہے جسے خود اپنی بے چینی کا سبب معلوم نہ ہو ۔ امریکی نوجوان مادی تہذیب سے، جس کی آخری نمائندگی مارکس نے کی، مکمل طور پر غیر مطمئن ہو چکا ہے۔ وہ دوبارہ اس ’’ ماضی‘‘ کو دیکھنے لگا ہے جس کو اس کے باپ دادا نے چھوڑ دیا تھا۔ مگر یہاں ’’ماضی‘‘ کی نمائندگی کرنے والی جو چیز ملتی ہے وہ عیسائیت ہے۔
عیسائیت اپنے موجودہ ڈھانچے کے ساتھ خالص علمی وعقلی ذہن کو اپیل نہیں کرتی ۔ اس لیے وہ ’’مارکس ‘‘کے ساتھ ’’مسیح‘‘ کا بھی باغی ہو جاتا ہے۔ تاہم جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بغاوت کے بعد وہ جس چیز کا طالب ہے ، وہ اس کے اپنے الفاظ میں وہی چیز ہے جس کا جواب صرف مذہب کے اندر ہے تو ہم یہ ماننے پر مجبور ہوتے ہیں کہ وہ اپنے مجہول احساس کے ساتھ اسی چیز کی تلاش میں ہے جس کو مذہب کہتے ہیں۔ مصنف نے اپنی کتاب کا نام ’’نہ مارکس نہ مسیح ‘‘ رکھا ہے۔ مگر باعتبارِ حقیقت اس کا نام ہونا چاہیے تھا ’’نه مارکس نہ مروجہ عیسائیت ‘‘ ۔
میڈالین ایم اوہیئر(Madalyn Murray O'Hair, 1919-1995) امریکہ کی مشہور ترین ملحد خاتون ہیں۔ وہ کھلم کھلا اپنے الحاد کی تبلیغ کرتی ہیں ۔ پکے خدا پرست والدین کی یہ بیٹی اپنے بچپن کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہے
’’مجھے ان کے اعتقادات کا علم تھا اور احترام بھی کرتی تھی ۔ مگر 13 سال کی عمر میں اتوار کا پورا دن انجیل پڑھتے رہنے کے بعد میں اس کی یکسر خلافِ عقل باتوں سے متنفر ہوگئی ۔‘‘
انسان مذہب کی طرف لوٹنا چاہتا ہے مگر مذہب کی غلط نمائندگی اس کو دوبارہ مذہب سے دور لے جارہی ہے۔یہ ہے دور جدید کا سب سے بڑا المیہ۔