ڈائری 1986
26جون 1986
بنگلور میں 26 جون سے 30 جون 1986 تک ایک بین المذاہب کانفرنس تھی۔اس کا دعوت نامہ مجھے ملا تھا اور میں نے اس کا مقالہ بھی تیار کر لیا تھا۔کانفرنس والوں کی طرف سے ٹکٹ بھی آ گیا تھا۔ مگر بعد کو میں نے بنگلور جانے کا ارادہ بالکل ختم کر دیا۔ مگر کانفرنس کے دو دن پہلے ڈاکٹر راجندر ورما میرے دفتر میں آئے۔ کانفرنس کے حکام کے مطابق میں ان کا رسپانڈنٹ (respondent) بنایا گیا ہوں۔ انھوں نے اصرار کیا کہ آپ ضرور بنگلور چلیں۔چنانچہ ان کے اصرار کی بنا پر میں راضی ہو گیا۔آج صبح کی فلائٹ سے بنگلور جا رہا ہوں۔
اس درمیان کا ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ 29 جون کو اسلامی مرکز کا ماہانہ اجتماع تھا۔ حسب ِمعمول لوگ آئے۔ مگر میں اس وقت بنگلور میں تھا۔ اجتماع میں میرا ایک ٹیپ بنایا گیا۔ بنگلور سے 30 جون کی شام کو واپس آیا۔ اس وقت معلوم ہوا کہ دو موٹے موٹے مشتبہ قسم کے آدمی اجتماع میں آئے تھے۔ وہ مجھ کو پوچھتے رہے۔ جب ان کو یقین ہو گیا کہ میں دہلی میں نہیں ہوں تو وہ واپس چلے گئے۔
آج کل کچھ لوگ میرے دشمن ہو گئے ہیں۔ شاید وہ مجھے قتل کرا دینا چاہتے ہیں۔ شبہ ہے کہ مذکورہ آدمی انہیں کی طرف سے کرایہ پر بھیجے گئے تھے۔یہی لوگ دوبارہ 2 جولائی کو آئے۔ اس بار وہ تین آدمی تھے۔ دفتر والوں نے کہہ دیا کہ اس وقت ملاقات نہیں ہو سکتی۔ مگر وہ ملاقات کے لیے اصرار کرتے رہے۔بڑی مشکل سے وہ واپس گئے۔اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔
27 جون 1986
اَسّی (80)کی دہائی میں میرے ساتھ مادی نقصانات کے کچھ واقعات پیش آئے۔ایک نقصان پر ہمارے ایک ساتھی نے مجھے یہ خط لکھ کرکہا کہ ان کو شریکِ مشورہ نہیں کیا گیا، ورنہ اس کی نوبت نہ آتی۔ وہ اپنے خط مورخہ 17 جون 1986 میں لکھتے ہیں
’’اس کا نقصان یہ سامنے آیا کہ اگر آپ نے مجھے ٹھیک سے سمجھا ہوتا تو شاید کئی مواقع پر میرا زیادہ مفید استعمال کر سکتے تھے۔ اگر آپ مجھے اس مسئلہ میں شروع سے دخیل فرما دیتے تو میرے خیال سے نوعیت ہی اس وقت کچھ اور ہوتی۔‘‘
عجیب بات ہے کہ ان معاملات میں میرے سوچنے کا انداز اس سے سراسر مختلف ہے، جو ہمارے مذکورہ ساتھی کے خط میں نظر آتا ہے۔یہ واقعات بلا شبہ ضیاع کے واقعات تھے۔ مگر ان کے ذریعہ مجھے ایک بہت بڑی دریافت ہوئی۔ ان واقعات نے مجھے ایک ایسی حقیقت کو سمجھنے میں مدد دی، جو اس سے پہلے شعوری طور پر مجھ پر واضح نہ تھی۔
ان واقعات پر غور کرنے کے بعد میں نے جاناکہ اگر مجھے اصل واقعہ سے کچھ پہلے معلوم ہو گیا ہوتا کہ میرے مخالفین اس معاملہ میں کیا سوچ رہے ہیں تو میں بروقت اقدام کر کے یقینی طور پر اس کا دفعیہ کر سکتا تھا۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آبائی زمین یا مرکز کی ایک عمارت کے بارے میں کوئی شخص قبضہ کا منصوبہ بنا رہا ہے تو میں اس کو پہلے ہی فروخت کر دیتا۔حقیقت یہ ہے کہ اس تجربہ کے بعد ہی میری سمجھ میں وہ آیت آئی جس کے الفاظ یہ ہیں:
وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ (7:188)۔ یعنی، اگر میں غیب کو جانتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کرلیتا اور مجھے کوئی نقصان نہ پہنچتا۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں فائدہ حاصل کرنے کا خاص مدار اس پر ہے کہ آدمی غیب کو جانتا ہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو غیر معمولی فتوحات حاصل ہوئیں، اس کا خاص الخاص رازیہی تھا۔ سیرت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بار بار اپنے پیغمبر کو مخالفین کی خفیہ تدبیروں سے باخبر کرتا رہا۔اس طرح آپ ان کے اقدام سے پہلے ان کے منصوبے سے آگاہ ہو گئے اور پیشگی کارروائی کر کے ان کے خفیہ منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔
مذکورہ ساتھی ایک مخلص آدمی ہیں۔ میں ان کی قدر کرتا ہوں۔ مگر مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا ادراک ابھی اس درجہ کو نہیں پہنچا ہے کہ وہ ہمارے مشن کی آزادانہ رہنمائی کر سکیں۔اس کی ایک مثال ان کا مذکورہ بالا خط ہے۔
یہ سطریں لکھتے ہوئے مذکورہ ساتھی کو شاید سورہ آل عمران کی وہ آیتیں یاد نہ تھیں جو غزوۂ احد سے متعلق ہیں۔قصہ یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ قریش مکہ آپ سے لڑنے کے لئے آ رہے ہیں تو آپ نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا۔صحابہ کی جماعت کی رائے یہ ہوئی کہ مدینہ سے باہر نکل کر ان کا مقابلہ کیا جائے۔ مگر عبد اللہ بن ابی کی رائے شدت سے یہ تھی کہ ہم لوگ مدینہ میں لڑیں۔جب قریش کا لشکر یہاں تک پہنچ جائے تو ہم اپنے گھروں کی آڑ لے کر ان کا مقابلہ کریں۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن ابی کی رائے کے خلاف دوسرے صحابہ کی رائے پر عمل کیا اور آگے بڑھ کر احد کے مقام پر دشمن کی فوج کا مقابلہ کیا۔جیسا کہ معلوم ہے کہ اس جنگ میں مسلمانوں کو شکست ہوئی۔
جنگ کے بعد عبد اللہ بن ابی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ پیغمبر نے ہماری رائے نہیں مانی اس لیے شکست ہوئی۔ اگر پیغمبر ہماری بات مان لیتے تو ہم اپنی بستی میں رہ کر مقابلہ کرتے اور ایسا نہ ہوتا کہ باہر احد کی وادی میں ہمارے نوجوان قتل کردیے جائیں۔اس کا جواب دیتے ہوئے قرآن میں کہا گیا کہ جو کچھ ہوتا ہے سب خدا کے حکم سے ہوتا ہے۔اگر تم اپنے گھروں میں ہوتے اور تم پر موت لکھی ہوئی ہوتی تو جہاں تم تھے وہیں مارے جاتے:
قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلهِ يُخْفُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ مَا لَا يُبْدُونَ لَكَ يَقُولُونَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ مَا قُتِلْنَا هَاهُنَا قُلْ لَوْ كُنْتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ إِلَى مَضَاجِعِهِمْ( 3:154)۔ یعنی، کہو، سارا معاملہ اللہ کے اختیار میں ہے۔ وہ اپنے دلوں میں ایسی بات چھپائے ہوئے ہیں جو وہ تم پر ظاہر نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اس معاملہ میں کچھ ہمارا بھی دخل ہوتا تو ہم یہاں نہ مارے جاتے۔ کہو، اگر تم اپنے گھروں میں ہوتے تب بھی جن کا قتل ہونا لکھ دیا گیا تھا، وہ اپنی قتل گا ہوں کی طرف نکل پڑتے۔
میں مذکورہ ساتھی کی عزت کرتا ہوں اور دل سے ان کے اخلاص کا قائل ہوں۔ مگر میری سوچ میں اور ان کی سوچ میں بہت زیادہ فرق ہے۔
مرکز کی ایک عمارت کے واقعہ پر ان کا کہنا ہے کہ اگر ان کو اس معاملہ میں شریکِ مشورہ کیا جاتا تو وہاں کی بلڈنگ کےساتھ یہ حادثہ پیش نہ آتا۔ جب کہ میری سوچ یہ ہے کہ اس معاملہ میں مجھے اس لیے نقصان اٹھانا پڑا کہ مجھےعلم غیب حاصل نہیں۔
ایک ہی واقعہ ہے۔ مگر کیسی عجیب بات ہے کہ اس میں ایک شخص نے خدا کو پایا اور دوسرے شخص نے اپنے آپ کو۔
یکم جولائی 1986
کیلی گولا(Caligula) چوتھا رومی شہنشاہ تھا۔ اس نے 37ء سے لے کر 41ء تک حکومت کی۔ مورخین عام طور پر اس کی بری تصویر پیش کرتے ہیں۔اس نے بہت سے لوگوں کا قتل کرا دیا۔ اس نے عجیب عجیب احکامات نافذ کئے۔حتیٰ کہ کچھ مورخین اس کو پاگل کہتے ہیں۔اگرچہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مقالہ نگار کا کہنا ہے کہ اس کے پاگل پن کی اکثر شہادتیں غیر ثابت شدہ ہیں:
Much of the evidence of his alleged madness has been disproved. (vol. II, p. 459)
آخرکار ایک فوجی افسر نے اس کو قتل کر دیا۔
کیلی گولا کے عجیب عجیب کاموں میں سے ایک یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک باراپنے تمام لوگوں سے بگڑ گیا۔ اس نے کہا کہ تم سب کے سب نالائق ہو اور تم سے کہیں زیادہ بہتر یہ میرا گھوڑا ہے۔اس کاایک گھوڑا تھا، جس کا نام انسی ٹیٹس(Incitatus)تھا۔اس نے اپنے اس گھوڑے کو روم کا گورنر بنا دیا۔
کیلی گولا سوار اور سواری میں فرق نہ کر سکا۔ ورنہ اسے معلوم ہوتا کہ گھوڑا سواری کرنے کے لیے بلاشبہ سمجھدار ہے، مگر وہ سوار بننے کے لیے سمجھدار نہیں۔
یہی معاملہ انسانوں کا بھی ہے۔ کچھ لوگ مدرس یا مقرر کی حیثیت سے لائق ہو سکتے ہیں، لیکن اگر ان کو قوم کا قائد بنا دیا جائے تو عین ممکن ہے کہ اس دوسرے میدان میں وہ اتنے ہی نا اہل ثابت ہوں، جتنا وہ درس اور تقریر کے میدان میں اہل نظر آ رہے ہیں۔
2جولائی 1986
قرآن کی تفسیر حدیث سے کرنا بہت اچھی بات ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ جب ایک مفسر کسی آیت کے ذیل میں ایک حدیث نقل کر دے تو اس کا مطلب لازماً یہ ہو جائے گا کہ حدیث کے مطابق اس آیت کی تفسیر یہی ہے۔ کیونکہ ایسی حدیثیں بہت کم ہیں جو براہ راست طور پر کسی آیت کی تفسیر میں آئی ہوں۔زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ مفسر اپنے خیال کے مطابق آیت کا ایک مفہوم سمجھتا ہے اور اس کے مطابق حدیثیں اس کے ذیل میں نقل کر دیتا ہے۔
مثلاً سورہ مزمل کی ایک آیت ہے: إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلًا(73:5)۔یعنی، ہم تم پر ایک بھاری بات ڈالنے والے ہیں۔اس آیت میں قول ثقیل کی تشریح کرتے ہوئے مفسر ابن کثیر نے وہ حدیثیں نقل کر دی ہیں جن کا تعلق نزول وحی کی کیفیت سے ہے۔مثلاً صحیح البخاری کی دوسری حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب قرآن نازل ہوتا تو وہ آپ پر سخت بوجھ پڑتا۔حتیٰ کہ سردی کے زمانہ میں بھی آپ کی پیشانی سے پسینہ ٹپکنے لگتا (وَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَنْزِلُ عَلَيْهِ فِي الْيَوْمِ الشَّدِيدِ الْبَرْدِ، فَيَفْصِمُ عَنْهُ وَإِنَّ جَبِينَهُ لَيَتَفَصَّدُ عَرَقًا)تفسیر ابن کثیر، جلد7، صفحہ 406۔
نزول وحی کی یہ کیفیت بذات خود صحیح ہے اور وہ روایات سے ثابت ہے۔ مگر سورہ مزمل کی مذکورہ آیت کا تعلق اس سے نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اس آیت میں قول ثقیل سے مراد وہ شہادت علی الناس کی ذمہ داری ہے جو اگلی سورہ (المدثر) میں ان الفاظ میں مذکور ہے قُمْ فَأَنْذِرْ(74:2)۔ یعنی، اٹھ اور لوگوں کو آگاہ کر۔ خدائی پیغام سے لوگوں کو آگاہ کرنا بلا شبہ اس دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ اسی لیے اس کو قول ثقیل سے تعبیر کیا گیا ہے۔
3جولائی 1986
ایک صاحب نے اپنے ایک رشتہ دار کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ بہت بہادرهيں ۔ مثلاً انھوں نے بتایا کہ ایک باروہ پرانی دہلی کی کسی سڑک پر کھڑے تھے کہ ان كے پاس سے ايك سائيكل سوار گزرا۔اس کی سائيكل سے کیچڑ اڑ کر مذکورہ صاحب کے کپڑے پر آ گیا۔ انھوں نے سائیکل والے کو روکا،ابھی وہ اس سے بات ہی کر رهے تھے کہ مذکورہ رشتہ دار نے ’’اس کو ایک ہاتھ لگا دیا‘‘۔
مگر یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ مذکورہ رشتہ دار صاحبِ اولاد نہیں ہوئے تھے۔بعد میں ان کی شادی ہوئی،اور بچے ہوئے ، تو مذکورہ صاحب کے الفاظ میں، ’’اب ان کےبچوں نے ان کو بزدل بنا دیا‘‘۔بچوں کے بعد کا واقعہ ہے،محلہ کے ایک شخص نے مذکورہ رشتہ دار سے بدتمیزی کی۔ مگروہ کچھ نه بولے، بالکل خاموشی کے ساتھ اپنے گھر چلے گئے۔ ان کا يه رویہ ان کےسابقہ رویہ کے سراسر خلاف تھا۔جب ان سے پوچھا گیا کہ اس بدتمیزی کو تم نے کیسے برداشت کیا۔ تو انھوں نے جواب دیا کہ اپنے چھوٹےچھوٹے بچوں کی خاطر۔ میرے بچوں نے مجھ کو برداشت کرنے پر مجبور کر دیا۔ میرے بچے گھر کے باہر سڑک پر نکلتے ہیں۔ میں ہر وقت ان کے ساتھ نہیں ہوتا۔ وہ شخص محلہ هي کا آدمی ہے۔اس کا غصہ اگر بڑھ گیا تو وہ میرے بچوں کےساتھ کچھ بھی کر سکتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ رشتہ دار بہت بہادر آدمی تھا ۔ وہ کسی سے نہیں ڈرتا تھا۔وہ بات بات میں لڑ جاتا تھا۔ مگر جب اس کی شادی ہوئی اور اس کے یہاں بچے پیدا ہوگئے تو بچوں كي محبت نے اس کا مزاج بدل دیا۔
مذکورہ رشتہ دار کے اندر یہ خوبی ممكنه طور پراس کے بچوں كو پهنچنے والے نقصان كے اندیشہ نے پیدا کی۔یہ وہ خوبی ہے جو درد کی درس گاہ میں سکھائی جاتی ہے۔ اگر آپ کے اندر درد نہ ہو تو آپ اس معاملہ کو نہیں سمجھ سکتے۔ ہمارے ملی قائدین صبر اور اعراض کی باتوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے اندر قوم کا درد نہیں ہے۔اپنے بچوں کی خاطر ہرآدمی بزدل بنا ہوا ہے۔مگر قوم کے بچوں کی خاطر کوئی شخص بزدل بننے کے لیے تیار نہیں۔
4جولائی 1986
مسز اینا کھنہ(Anna Khanna)ایک انگریز خاتون ہیں۔انگلینڈ میں انھوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد ان کی ملاقات مسٹر پریم کھنہ سے ہوئی، جو مزید تعلیم کے لیے انگلینڈ گئے تھے۔وہ آئی اے ایس ہیں۔بعد کو دونوں نے شادی کر لی اور اب مسز اینا کھنہ اپنے شوہر کے ساتھ نئی دہلی میں رہتی ہیں۔
مسز کھنہ اگرچہ ایک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔مگر عیسائیت پر یا مذہب پر ان کا کوئی عقیدہ نہ تھا۔ وہ کبھی چرچ نہیں جاتی تھیں۔ وہ پورے معنوں میں سیکولر تھیں۔
فروری 1984 میں انگریزی الرسالہ نکلا تو ہم لوگوں کا ربط ان سے قائم ہوا۔ میری لڑکی فریدہ اپنے ترجمہ کیے ہوئے انگریزی مضامین کی نظر ثانی ان سے کراتی تھی۔ شروع کے دو سال اس طرح گزرے کہ وہ اکثر خدا اور مذہب کی باتوں پر فریدہ سے بحث کرتیں۔ بعض مضامین جن میں خدا کو خیرمطلق کے طور پر پیش کیا گیا تھا، ان کو دیکھ کر وہ بگڑ گئیں۔ حتیٰ کہ اندیشہ ہوا کہ شاید وہ نظر ثانی کا کام ہی چھوڑ دیں۔تاہم کام جاری رہا اور ان کے کہنے کے مطابق معاوضہ کی شرح بھی بڑھاتی جاتی رہی۔ یہاں تک کہ تیسرا سال آ گیا۔ اور فریدہ نے مذہب اور جدید چیلنج کا انگریزی ترجمہ کر کے انہیں نظر ثانی کرنے کے لیےدیا۔اس کتاب کے پڑھنے کے بعد ان کے ذہن میں واضح طور پر فرق محسوس ہو رہا ہے۔ اب نہ صرف یہ کہ ان کی شدت ختم ہو گئی ہے، بلکہ خدا پر ان کا عقیدہ بحال ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ اب وہ پہلے سے زیادہ ہمارے کاموں کے لیے sympatheticہو گئی ہیں۔
یہ ایک مثال ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر مسلسل کام کیا جائے تو سخت سے سخت آدمی کو بھی متاثر کیا جا سکتا ہے۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
ایک سوال
أَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِنْ أُولَئِكُمْ أَمْ لَكُمْ بَرَاءَةٌ فِي الزُّبُرِ (54:43)۔یعنی، کیا تمہارے منکر ان لوگوں سے بہتر ہیں یا تمہارے لیے آسمانی کتابوں میں معافی لکھ دی گئی ہے۔ اس میں کس چیز کی براءۃ کی طرف اشارہ ہے۔ (حافظ سید اقبال احمد عمری، تامل ناڈو)
جواب
قرآن کی اس آیت میں وقتی ریفرنس کے اعتبار سے قدیم مکہ کے قریش کو خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی گئی ہے۔مگر ابدی اصول کے اعتبار سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی گروہ مستثنیٰ گروہ کی حیثیت نہیں رکھتا۔ ہر ایک کا معاملہ یکساں ہے۔ یعنی ہر ایک کو ایک ہی معیار پر جانچا جائے گا۔ ہر ایک سے ایک ہی اصول کی روشنی میں معاملہ کیا جائے گا۔ نہ پیدائشی اعتبار سے کسی کا معاملہ دوسروں سے مختلف ہے، اور نہ ایسا ہے کہ قرآن کے سوا جو دوسری آسمانی کتابیں اللہ نے اتاری ہیں، ان میں کسی گروہ کے بارے میں یہ اعلان ہے کہ ان کا کیس ایک مستثنیٰ کیس ہے۔ وہ بھی خدا کے مواخذہ کے قانون کے تحت ہیں، جس طرح دوسرے تمام لوگ ہیں۔