خدا کی رحمت

بارش کے موسم میں بارش نہ ہو تو کسان پریشان ہو جاتے ہیں کیونکہ بارش ہی کے اوپر کھیتی کا دارومدار ہے۔ بارش سے کھیتوں میں فصل اگتی ہے اور سال بھر کی روزی حاصل ہوتی ہے۔ بارش نہ ہو تو کسانوں کے کھیت ویران ہو جائیں، ہم کو اپنی خوراک کے لیے غلہ نہ ملے۔ اسی طرح ایک اور بارش ہے۔ یہ اللہ کا وہ فضل ہے جس سے نیک عمل کی توفیق حاصل ہوتی ہے، جس سے ہمارے ایمان کی زمین پر اسلامی کردار کی کھیتیاں اگتی ہیں۔ اللہ کی توفیق نہ ملے تو ہمارے ایمان کی زمین سوکھی پڑی رہ جائے اور اس سے نیک اعمال کی وہ فصل نہ اُگے گی، جو جنت کا دروازہ کھولنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ توفیق کی اہمیت اسلامی کردار پیدا کرنے میں اسی طرح ہے جیسے بارش کی اہمیت کھیتوں میں فصل اگانے کے لیے۔

جب بادلوں والی بارش رکتی ہے تو کسان بے حد پریشان ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح جب عمل کی توفیق والی بارش رکےتو مومن بندہ کو بے چین ہو جانا چاہیے ۔اس کو اپنا احتساب کرنا چاہیے کہ کیوں اس کے اوپر توفیقِ الٰہی کی بارش رک گئی۔ ایسا کیوں ہے کہ اس کے اندر وہ جذبات نہیں امنڈ رہے ہیں جو اللہ کے پسندیدہ اعمال کا محرک بنتے ہیں۔ 

جب آپ کو ایک اچھی نماز پڑھنے کی سعادت ملتی ہے تو درحقیقت وہ رحمتِ الٰہی کی بارش کی ایک بوند ہوتی ہے جو آپ کے اوپر ٹپکتی ہے۔ جب آپ کو خالص اللہ کی خاطر روزہ رکھنا اور حج کرنا نصیب ہوتا ہے، جب آپ خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی خوشی حاصل کرتے ہیں تو یہ سب بھی اللہ کی اسی بارش کی چھینٹے ہوتے ہیں جو آپ کو اللہ کی توفیق سے پہنچتے ہیں۔ اسی طرح جب اللہ کی یاد سے آپ کا دل سرشار ہواٹھتا ہے، جب آپ کی آنکھیں اللہ کی راہ میں رونے کی توفیق پاتی ہیں، جب آپ کی زندگی میں درد کے وہ لمحات آتے ہیں جو آپ کو اللہ کے خوف و محبت سے تڑپا دینے والے ہوں تو یہ سب بھی اسی اَن دیکھی بارش کا فضل ہوتا ہے، جو اللہ کی طرف سے آپ کے اوپر برستا ہے۔ جب آپ اپنے بھائی کی کوئی خدمت کرتے ہیں، جب دوسرے کے دکھ سے آپ کو دکھ اور دوسرے کے سکھ سے آپ کو سکھ ہوتا ہے، جب آپ دل کی سچائی کے ساتھ ان کاموں میں سے کوئی کام کرتے ہیں جن کو بندوں کے حقوق کی ادائیگی کا نام دیا گیا ہے تو یہ سب اسی خدائی بارش کے چھینٹے ہوتے ہیں جو آپ کے اوپر اس کی رحمتِ خاص سے برستے ہیں۔ 

ہم سب مسلمان ہیں اور یہ خوشی کی بات ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ مگر یاد رکھیں مسلمان ہونا یا مسلمان گھر میں پیدا ہونا صرف یہ معنی رکھتا ہے کہ آپ کو ایمان و اسلام کی زمین حاصل ہے۔ مگر ہر کسان جانتا ہے کہ صرف زمین کا مالک ہونا کافی نہیں۔ بلکہ اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اس زمین کو پانی کی سہولتیں حاصل ہوں۔ صحرا میں ہر طرف زمین ہی زمین ہوتی ہے مگر وہ کھیتی کے لیے بیکار ہے۔ وہاں ہری بھری فصل کے بجائے ہر وقت ریت اڑتی رہتی ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہاں پانی کا ایک قطرہ نہیں۔ ایک کسان کے لیے صرف یہ بات کافی نہیں ہے کہ اس کے پاس کھیت ہیں، خواہ وہ کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں۔ کھیت سے فصل اگانے کے لیے ضروری ہے کہ پانی اس کھیت تک پہنچے۔سوکھا کھیت اسی وقت لہلہاتی ہوئی فصل کی صورت میں بدلتا ہے، جب وہ پانی سے سیراب ہوتا ہے۔ 

اسی طرح ہمارے لیے صرف یہ بات کافی نہیں کہ ہم ایمان و اسلام کو ماننے کا زبانی دعویٰ کریں۔ اس کے ساتھ لازمی طور پر یہ بھی ضروری ہے کہ ہماری اسلامی زمین پر خدا کی توفیق کی بارش بھی ہو رہی ہو۔ ہمارے دل میں اللہ سے خوف و محبت کی وہ بوندیں ٹپکیں، جو آدمی کے اندر ربانی ہلچل پیدا کرتی ہیں اور اس کو نیک کام کرنے پر ابھارتی ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ خدا کی اس بارش میں اس کو حصہ مل رہا ہے یا نہیں۔ اس کے اوپر رحمتوں کا وہ فضل برس رہا ہے یا نہیں جس سے خدا کے پسندیدہ اعمال کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ اگر اس روحانی بارش کی بوندیں آپ کے اوپر ٹپک رہی ہیں تو خدا کا شکر ادا کریں کیونکہ یہ سب سے بڑی نعمت ہے جو اس دنیا میں کسی کو ملتی ہے۔ اور اگر اس بارش کے چھینٹے آپ کی ہستی کو نم نہ کر رہے ہوں تو آپ کو اس سے زیادہ بے چینی ہونا چاہیے جتنا کوئی کسان اس وقت بے چین ہوتا ہے جب بادل اس کی زمین پر بارش برسانے سے رک گئے ہوں۔ کیونکہ بادلوں والی بارش کسی کو صرف ایک سال کے غلہ سے محروم کرتی ہے، جب کہ توفیقِ عمل کی بارش کا رکنا آدمی کو اس سخت ترین اندیشہ میں مبتلا کر دیتا ہے کہ وہ آخرت کی ابدی زندگی میں گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہو جائے۔ 

کوئی آدمی نماز، روزہ اور اس طرح کے دوسرے اعمال کر رہا ہے، مگر ان کی حیثیت اس کے لیے ایسی ہے جیسے کچھ بے روح رسم ہو جس کو وقتاً فوقتاً ادا کر لیا جائے، تب اس کو مطمئن نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ وہی عمل اسلامی عمل ہے جس کے ساتھ آدمی کے دل کی دھڑکنیں شامل ہو جائیں، جس کے اندر اس کی روح کی تڑپ گھل مل گئی ہو۔ جو عمل آدمی کی زندگی کا محض ایک خشک ضمیمہ (index) ہے وہ محض ایک بے فائدہ رسم ہے جس کی کوئی قیمت نہ دنیا میں ہے نہ آخرت میں۔ 

ہم میں سے ہر شخص کو اس اعتبار سے اپنا جائزہ لینا چاہیے۔ اگر بارش برسانے والے بادل رک جائیں تو ہم استسقا کی نماز پڑھتے ہیں۔ لوگ پانی حاصل کرنے کے دوسرے طریقوں کی طرف دوڑنا شروع کرتے ہیں۔ اسی طرح توفیقِ عمل کی بارش رکنے پر آپ کو چوکنّا ہو جانا چاہیے۔ آپ کو خدا سے دعا اور التجا کرنا چاہیے کہ وہ آپ کو اپنی نعمتِ توفیق سے محروم نہ کرے۔ 

اگر آپ کو زندہ عبادت کی توفیق نہ مل رہی ہو، اگر خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا شوق آپ سے رخصت ہو گیا ہو، اگر دوسروں کا بھلا دیکھ کر آپ خوش نہ ہوتے ہوں، اگر اپنے بھائیوں کی خدمت کرنے کا جذبہ آپ کے اندر نہ ابھرتا ہو، اگر آپ اپنے فائدے کے پیچھے دوسرے کا نقصان بھول جاتے ہوں، اگر اپنے صاحبِ معاملہ کے ساتھ انصاف کرنا آپ کو گوارا نہ ہوتا ہو، کسی سے شکایت پیدا ہونے کے بعد اگر آپ اس کو معاف کرنے پر راضی نہ ہوتے ہوں، اگر اس طرح کی باتیں ہوں تو سمجھ لیں کہ آپ کے ایمان کی زمین سوکھی پڑی ہوئی ہے۔ آپ کے اوپر اللہ اپنی توفیق کی بارش نہیں برسا رہا ہے۔ خدا کی رحمتوں سے محرومی نے آپ کے اندر اسلام کے پودے کو خشک کر دیا ہے۔ 

اسی طرح آپ کو اس وقت بھی بے چین ہو جانا چاہیے جب آپ اپنا یہ حال پائیں کہ آپ انہی دینی کاموں میں رغبت رکھتے ہوں جن سے آپ کی دنیا کو کوئی نقصان نہ ہو، جس میں آپ کے مادی مفادات پوری طرح محفوظ رہتے ہیں، جس میں سستی قیمتوں پر جنت کے دروازے کھلتے ہوئے نظر آتے ہیں، جس میں کچھ کیے بغیر کرنے کا تمغہ مل جاتا ہے، جس میں الفاظ بول کر عمل کا کریڈٹ حاصل ہوتا ہے۔ اس قسم کے ’’دین‘‘ کی طرف لپکنا اور نفس کو دبانے اور جذبات کی قربانی دینے والے دین سے بے پروا ہونا دینداری کی حالت نہیں بلکہ غفلت کی حالت ہے۔ 

اگر آپ کا یہ حال ہو کہ آپ انہی دینی کاموں کی طرف دوڑتے ہوں جن میں دنیاوی نفع ملنے والا ہو، جن میں شہرت اور عزت کی چاشنی ہو، جن میں آپ کی عوامی تصویر میں اضافہ ہوتا ہو، جن میں آپ اپنے کو نمایاں کرنے کے مواقع پا رہے ہوں، جن میں عمل کی قیمت دنیاوی صورت میں وصول ہوتی ہو، جن میں دینی کام کی قیمت پذیرائی کی صورت میں مل رہی ہو۔ آپ دنیاوی پہلو رکھنے والے دینی کام میں تو خوب تیزی دکھائیں اور جس دینی کام میں کوئی دنیاوی چاشنی نہ ہو، اس سے بے رغبت رہیں تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ خدا کی توفیق میں حصہ پانے سے محروم ہیں۔ کیونکہ دولت اور عزت والے دین کی طرف دوڑنا دین کے نام پر اپنے نفس کی طرف دوڑنا ہے، نہ کہ حقیقتاً خدا کے دین کی طرف دوڑنا۔ 

ان تمام حالتوں میں آپ کو مطمئن ہونے کا موقع نہیں۔ آپ کو بے تاب ہو کر خدا کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ آپ کو خدا کی بارشِ رحمت کو اپنی طرف مائل کرنا چاہیے، قبل اس کے کہ آپ کا سوکھا ہوا پودا خدا کے باغ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے۔

✱✱✱✱✱✱✱✱

جنت میں اہلِ جنت کا ایک مشغلہ یہ ہوگا کہ وہ کلمات اللہ کا مطالعہ کریں، وہ کلمات اللہ کو دریافت کریں، اور پھر کلمات اللہ کو قلم بند کریں۔ یہ ربانی انسان کون ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو دنیا کے اندر قرآن کے الفاظ میں آلاء اللہ(7:69) اور کلمات اللہ (18:109)کی سوچ میں جینے والے ہوں۔ ایسے لوگوں کو یکجا کرکے جو دنیا بنے گی، اسی کا نام جنت ہے۔ وہ ایک نیا دورِ تہذیب (age of civilization) ہوگا۔ یہاں کی ہر چیز اعلیٰ معیار کی ہوگی۔ یہاں کی سوسائٹی اعلیٰ سوسائٹی ہوگی۔ یہاں ربانی معرفت کی اَن فولڈنگ کے اعلیٰ ادارے ہوں گے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom