میدان کا انتخاب
قرآن میں بتایا گیا ہےکہ اللہ نے جب آدم اور حوا کو پیدا کیا تو ان کو جنت میں آباد کیا ۔ اللہ نے فرمایا کہ تم پوری جنت کو استعمال کر سکتے ہو ،لیکن جنت کا ایک درخت تمھا رے لیے شجرِ ممنوع (forbidden tree) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے تم دونوں اس درخت کے پاس مت جانا اور اس کا پھل مت کھانا ورنہ تم دونوں ظالم ہوجاؤ گے:
وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونا مِنَ الظَّالِمِينَ (2:35)۔
Do not approach this tree lest you become wrongdoers (2:35)
یہ قصہ صرف آدم اور حوا کا ایک قدیم روایتی قصہ نہیں ، اس میں پوری انسانیت کے لیے ایک ابدی سبق موجودہے۔ یہ قصہ علامتی طوپر بتاتا ہےکہ انسان کے بارے میں اللہ کا تخلیقی منصوبہ (creation plan of God ) کیا ہےاور یہ کہ اس تخلیقی منصوبے کے مطابق ،ہر عورت اور ہر مرد کا سب سے بڑامسئلہ کیا ہے۔ ان کو ناکامی سے بچنے کے لیے اس دنیا میں کس طرح رہنا چاہیے۔ مگر عملاً یہ ہوا کہ آدم اورحوا نے اس ممنوع درخت کا پھل کھا لیا۔ ان سے یہ غلطی صرف ایک درخت کے بارے میں ہوئی تھی،مگرعملی نتیجہ یہ ہو اکہ وہ پوری جنت سے محروم ہوگئے ۔
آدم اور حوا کا یہ قصہ انسان کے بارے میں خالق کے مقرر کردہ ایک اہم اصول کوبتاتاہے۔ و ہ یہ کہ ہر انسان اور ہر انسانی گروہ کے لیے ایک’’ممنوع درخت‘‘(forbidden tree) ہوتا ہے ۔ فرد اور جماعت دونوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اس’’ممنوع درخت‘‘ کو دریا فت کریں اور اس سے کامل طوپر پرہیز کریں، ورنہ وہ لازمی طوپر اس کے برے انجام سے دوچار ہوں گے اور پھر کوئی چیز نہ ہوگی، جوان کو اس تباہ کن انجام سے بچائے ۔
اب اس معاملے کوفردکی نسبت سے دیکھیے۔ اس دنیا کوبنانے والے نے ایک خاص مقصد کے تحت اسے بنایا ہے۔ وہ یہ کہ یہ دنیا ایک انتخابی میدان (selection ground) ہے۔ اس دنیا میں مختلف قسم کے موافق اور نا موافق حالات کے درمیان آدمی کا امتحان لیا جارہا ہے۔ اس مقصد کے تحت اس دنیا میں ہرعورت اور مرد کوہر لمحہ کوئی نہ کوئی ناخوش گوار تجربہ پیش آتا ہے۔آدمی اپنے مزاج کے اعتبار سے معیار پسند ( idealist ) ہے،مگر موجودہ دنیا میں ہر چیز غیر معیاری ہے۔ اس بنا پر عملاً یہ ہوتا ہےکہ آدمی اپنی بے شعوری کی بناپر منفی سوچ (negative thinking) میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے آپ کوجنت کےلیے غیر مستحق انسان بنالیتا ہے۔
اس امتحان میں کامیابی کے لیے ضروری ہےکہ ہر آدمی یہ دریافت کرے کہ سماجی زندگی میں اس کے لیے ’’ممنوع درخت‘‘ کیا ہے۔اسے یہ سمجھنا چاہیےکہ وہ جس’’درخت‘‘ کونہ پانے کی وجہ سے منفی سوچ میں مبتلا ہورہا تھا، وہ در اصل اس کے لیے’’ممنوع درخت‘‘ کی حیثیت رکھتا تھا ، اور اسے حاصل کرنا اس کے لیے فائدے کی بجائے نقصان کا سبب بنتا۔
افراد (individuals) کے بارے میں یہ المیہ پوری تار یخ میں پیش آیا ہے۔ تقریباً تمام انسانوں کا یہ حال ہورہا ہےکہ وہ تجرباتِ حیا ت کے دوران کسی نہ کسی اعتبا رے منفی نفسیا ت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ وہ منفی سوچ میں جیتے ہیں اورمنفی سوچ میں مرتے ہیں۔ کسی شخص کایہ حال ہےکہ وہ اپنے خواہشات(desires) کی تکمیل (fulfilment)چاہتاتھا،مگر یہ تکمیل اس کو نہیں مل پاتی ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہےکہ و ہ ما یوسی کی حالت میں جیتا ہے، اور مایوسی کی حالت میں اس دنیا سے چلا جاتا ہے ۔ کسی نے آئڈیل انصاف (ideal justice) کو ایک نشانہ بنایا ،مگروہ جدوجہد کے باو جود آئڈیل انصاف نہ پاسکا ، نتیجہ یہ ہواکہ وہ فرسٹریشن کا شکا ر ہو کررہ گیا ۔کسی نے یہ چاہاکہ وہ اسی دنیا میں اپنی جنت تعمیر کرے،مگرسار ی کوشش کے باوجود وہ اپنی مطلوب جنت کی تعمیر نہ کرسکا ۔نتیجہ یہ ہو اکہ وہ صرف ناامیدی کا ایک کیس بن کررہ گیا ۔
افراد کے بارے میں یہ المیہ (tragedy ) پوری تاریخ میں نظر آتاہے۔ اس کا مشترک سبب یہ ہےکہ ہر انسان نے اپنے لیے ایک ایسی چیز کوحاصل کرنا چاہا جوخالق کےمنصو بے کے مطابق ، اس کے لیے’’ممنوع درخت‘‘ کی حیثیت رکھتا تھا، اس بنا پر وہ اس کے لیے قابل ِ حصول ہی نہ تھا ،اس صورت حال نے انسانی تاریخ کو عملاً انسانی تمناؤں کا ایک وسیع قبرستان بنادیا ۔
یہی معاملہ قوموں کاہے۔تاریخ میں باربار یہ حادثہ پیش آرہا ہےکہ قومیں یا قوموں کے لیڈر اپنے لیے ایسانشانہ بنا تے ہیں۔ جو اپنی حقیقت کے اعتبار سے ان کےلیے ناقابل حصول (unachievable)ہوتا ۔نتیجہ یہ ہو تا ہےکہ وہ جو کرتے ہیں وہ اپنےانجام کے اعتبارسے ان کےلیے کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter productive ) ثابت ہوتا ہے۔وہ بڑے بڑے حوصلوں کے ساتھ زندگی کا آغا ز کرتے ہیں۔ اورآخرمیں وہ مایوسی کا شکار ہو کر اس دنیا سےچلے جاتے ہیں۔ سکندر اعظم (Alexander the Great ) 336قبل مسیح میں یونان کا بادشاہ بنا ۔اس نے اپنے لیے ایک ناقابلِ حصول پولٹکل نشانہ بنایا،یعنی یہ کہ وہ فوجی طاقت کے ذریعے ساری دنیا کو فتح کرے ۔مگر عملاً یہ ہوا کہ وہ صرف 33سال کی عمر میں شدید مایوسی کی حالت میں مر گیا ۔
ہٹلر ( Adolf Hitler, b. 1889) 1933 میں جرمنی کا چانسلر( Chancellor) مقرر ہوا۔ مگراس نے اپنے لیے ایک ناقابل حصول سیاسی نشانہ بنایا ،یعنی پورے یورپ میں جرمنی کا اقتدار قائم کرے ۔مگر بڑے بڑے فوجی اقدامات کے باوجود وہ اپنانشانہ پورانہ کرسکا ۔یہاں تک کہ 1945 میں شدید مایوسی کی حالت میں اس نے خودکشی کرلی ،جب کہ اس کی عمر ابھی صرف 56 سال تھی۔
اس طرح کی ایک مثال کمیونسٹ پارٹی کی ہے۔ کمیونسٹ پارٹی نے 1917 میں روس میں اقتدار حاصل کیا۔ اس کے بعداس نے اپنے لیے ایک ناقابلِ حصول نشانہ بنایا ،یعنی کمیونسٹ آئڈیالوجی کو ساری دنیا میں ایکسپورٹ کرنا ۔اس مقصد کے لیے اس نے بہت فوجی کاروائیاں کیں۔ اسی سلسلے کا ایک واقعہ یہ تھا کہ اس نے1979میں افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کر دیں ، مگر اس کا نتیجہ بر عکس صورت میں نکلا1991 میں خود کمیونسٹ ایمپائر ( Soviet Union) ٹوٹ گیا، عالمی نقشے پر وہ سپرپاور کی حیثیت سے باقی نہ رہا۔
اسی نوعیت کی ایک مثال امریکا ہے۔ اس نے بھی یہی کیا کہ اپنے لیے ایک ناقابل حصول نشانہ بنایا۔ امریکا کے پولٹکل لیڈربراک اوباماکو دوسری بار صدر امریکا منتخب کیا گیا۔ اس سلسلے میں واشنگٹن میں22جنوری 2013 کو ایک خصوصی تقریب منعقد کی گئی۔ اس موقع پر صدر اوبامانے ایک افتتاحی تقریر کی ۔اس تقر یر میں انھوں نے امریکا کی عالمی پالیسی کو دہراتے ہوئے کہا کہ— امریکاساری دنیا میں جمہوریت کو اپنی سپورٹ دیتا رہے گا
We will support democracy from Asia to Africa, from the Americas to the Middle East.
مگر واقعات بتاتے ہیں کہ امریکاکی یہ پالیسی اس کے لیے پوری طرح کاؤ نٹر پروڈکٹیو (counter-productive)ثابت ہوئی ہے۔ دوسر ی عالمی جنگ کے بعد امریکا ایک مضبوط قوم (strong nation ) کی حیثیت سے ابھراتھا ۔ امریکا کی اقتصادیا ت کو ایک مستحکم اقتصادیا ت سمجھا جاتا تھا، لیکن اب اکیسو یں صدی میں امریکا نے اپنی یہ حیثیت کھو دی ہے۔ امریکا کی مذکورہ خارجہ پالیسی نے اس کو صرف یہ تحفہ دیا کہ امریکا کی سپرپاور حیثیت دنیا کی نظر میں مشتبہ ہوگئی۔
اس معاملے میں خود ملت مسلمہ کا حال بھی یہی ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں نے اور ان رہنماؤں کی پیروی کرتے ہوئے تقریباً تمام مسلمانوں نےیہ فرض کرلیا کہ دنیا کی تمام قومیں ان کی دشمن ہیں،ہرجگہ ان کے خلاف سازش جاری ہے، ان کی حکومتوں کوتوڑا جارہاہے،ان کے سیاسی دبدبہ کو ختم کیا جارہا ہے۔ اس سوچ کےتحت تمام دنیا کے مسلمان مفروضہ دشمنوں کے خلاف مفروضہ جہاد میں مشغول ہوگئے ۔اس جہاد میں عملاً پوری ملت مسلمہ شامل ہے۔ کچھ لوگ انفعالی جہاد (passive jihad ) کے طورپر اور کچھ لوگ عملی جہاد (active jihad) کے طورپر اس کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔
مگر اس معاملے میں ملت مسلمہ کا انجام بھی وہی ہورہا ہے، جو دوسری قوموں کا ہورہا ہے۔ یعنی تقر یباََ200 سال کی جدوجہد اور قربانی کے باوجود ان کا مقصود حاصل نہیں ہوا ،بلکہ یہ ہوا کہ ملت مسلمہ کی تباہی میں ناقابلِ تلافی حدتک اضافہ ہوگیا ۔ اس کی ایک مثال فلسطین ہے۔ فلسطین میں 1948 میں تمام عرب اور غیر عرب مسلمانوں کی حمایت سے اسرائیل کے خلاف جہاد شروع ہوا ، مگر نتیجہ بر عکس صورت میں نکلا۔ 1948 میں جب جہادِفلسطین شروع ہوا ۔اس وقت فلسطین کا تقریباََ نصف حصہ بشمول یروشلم ( مسجد اقصی اور بیت المقدس، وغیرہ ) عربوںکے پاس تھا ،مگر آج عربوں کے پاس فلسطین کا اتناکم حصہ ہے،جو عملاً نہ ہونے کے برابر ہے۔
یہ الم ناک واقعات جو مسلمانوں او ردوسری قوموں کے ساتھ پیش آرہے ہیں۔ ان سب کا مشترک سبب صرف ایک ہےاور وہ ہے ’’ممنوع درخت‘‘ کے قانون فطرت کی خلاف ورزی کرنا۔ ہر قوم نے ایک ایسی منزل کی طرف رخ شروع کررکھا ہے، جہاں پہنچنا اس کےلیے مقدر نہیں۔
اس عالمی مسئلے کا حل صرف یہ ہے کہ ہر فرد اور ہر قوم اپنے معاملے کا ازسرنو جائزہ لے۔ وہ خالق کے منصوبے کو سمجھے ،وہ غیر جانب دارانہ سوچ کے تحت یہ دریافت کرے کہ خالق کے منصوبے کے تحت اس کا ممنوع درخت (forbidden tree) کیا ہےاور پھر اپنی سابقہ غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی کرے۔ وہ ممنوع میدان کو چھوڑے اور جو میدان اس کےلیے کھلاہوا ہے، اس میں ازسرِنو اپنی جدوجہد کا آغاز کرے۔ یہی کا میابی کا واحد راز ہے۔ اس کے بغیر اس دنیا میں کسی کے لیے بھی کامیابی کا حصول ممکن نہیں، نہ کسی فرد کے لیے اورنہ کسی قوم کے لیے۔ اس اصول کا خلاصہ مختصر طورپر یہ ہے اپنےشجرممنوعہ کو دریافت کرنا اور اس سے دوری اختیار کرتے ہوئے اپنے عمل کا منصوبہ بنانا ۔
✱✱✱✱✱✱✱✱
حاصلِ تجربہ
میری عمر66 سال ہوگئی۔ اگر مجھےبتانا ہو کہ میری پوری زندگی کے مطالعہ اور تجربہ کاآخری حاصل کیا ہے، تو میں کہوں گا کہ— اللہ تعالیٰ نے انسان کی صورت میں ایک مسٹر نتھنگ (Mr. Nothing) پیدا کیا اور اس کے اوپر (thing) کا پردہ ڈال دیا ۔
انسان کے پاس بظاہر دماغ ہے، علم ہے ، طاقت ہے ،اسباب و وسائل ہیں۔ مگر یہ سب کا سب ظاہری پر دہ ہے ۔ اس پر دہ کے اندر داخل ہو کر دیکھیے تومعلوم ہوگا کہ انسان کی کسی چیز کی کوئی حقیقت نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ انسان کا ایک علیحدہ وجود ہے ۔ اس کا یہ علیحدہ وجود دنیا سے لے کر آخرت تک باقی رہے گا۔ انسان کا سارا معاملہ سراسر اللہ کی ذات پر منحصر ہے۔ دنیا میں بھی اگر وہ کچھ پاتاہےتو وہ اللہ کے دیے سے پا تا ہے ۔ اور آخرت میں بھی وہ جو کچھ پائے گا اللہ کے دیے سے پائے گا ۔
انسان کے پاس ارادہ ہے مگر حسبِ ارادہ نتیجہ ظاہر کرنےکی اس کے اندر طاقت نہیں۔ انسان کے پاس فکر ہے، مگر حالات کے اوپر اس کا کنٹرول نہیں۔ اس کو چاہنے کا اختیار ہے، مگر اس کو کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ (ڈائری، 26 فروری 1990)