یک طرفہ رپورٹنگ
آج کل جس مسلمان سے بات کیجیے، وہ ہمیشہ ایک ہی بات کو دہرائے گا، اور وہ مسلمانوں پر ظلم کی بات ہے۔ اگر ان سے مزید گفتگو کیجیے تو وہ اخباری خبروں (یاکسی غیر متحقق انسان کی سوشل میڈیا پر موجود ایک ویڈیو)کا حوالہ دے گا۔ مگر یہ سب یک طرفہ خبر رسانی کی مثالیں ہیں۔میڈیا انتخابی نیوز (selective news) کی انڈسٹری ہے۔میڈیا صرف اُن باتوں کو منتخب کرتا ہے، جن میں کوئی سنسنی خیز پہلو ہو۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس قسم کی خبروں کو قبول کرنے میں سخت احتیاط کا طریقہ اختیار کریں۔ قرآن کے مطابق، ایسی خبروں کو مان لینا درست نہیں ہے، بلکہ رائے بنانے سے پہلے غیرجانبدارانہ انداز میں ان کی تحقیق کرلینی چاہیے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم ان الفاظ میں دیا ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ (49:6)۔ یعنی اے ایمان والو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس خبر لائے تو تم اچھی طرح تحقیق کرلو، کہیں ایسانہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانی سے کوئی نقصان پہنچا دو ، پھر تم کو اپنے کیےپر پچھتانا پڑے۔مفسر ابن جریر نے اس کی تفسیر ان الفاظ میں کی ہے: أمْهِلُوا حتى تَعرِفوا صحَّتَه، لا تعَجَلوا بقبولِه (تفسیر الطبری، جلد21، صفحہ 349)۔ یعنی، جلدی نہ کرو، پہلے یہ تحقیق کر لو کہ یہ بات درست ہے یا نہیں ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے فرمایا تھا جب تمہارے پاس دو آدمی مقدمہ لے کر آئیں، تو پہلے والے کے حق میں فیصلہ نہ کرو جب تک دوسرے کا بھی بیان نہ سن لو ( فَلا تَقْضِ للأوَّلِ حَتى تَسْمعَ كَلامَ الآخَر)، تب تم بہتر طریقے سے فیصلہ کر سکو گے (سنن ترمذی، حدیث نمبر 1380)۔یک طرفہ رپورٹنگ کا طریقہ بلاشبہ خلافِ اسلام عمل ہے۔ مگرموجودہ زمانے میں یک طرفہ رپورٹنگ کا انداز بہت زیادہ عام ہے۔ حتیٰ کہ جب کوئی مسلمان ملّی جوش میں ایک خبر پھیلا رہا ہوتا ہے، تو اس کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ یک طرفہ رپورٹنگ کی غلطی کررہا ہے۔