حق گوئی و بے باکی
آج کل بہت سے لوگ ایک لفظ بولتے ہیں، وہ ہے حق گوئی و بے باکی۔ بلاشبہ یہ ایک غیرمفید کام ہے۔جو لوگ اس ٹائٹل کے ساتھ لکھتے اور بولتے ہیں، وہ علم اور علمی ذوق سے بالکل بے خبر ہیں۔
جس چیز کو حق گوئی و بے باکی کہا جاتا ہےوہ دراصل ری ایکشن (reaction) کا دوسرا نام ہے، اور ری ایکشن کا طریقہ صرف مسائل میں اضافہ کرتا ہے، نہ کہ مسائل كو كم کرتا ہے۔عملی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس طرح کے بےباکانہ اظہارِ خیال کا کوئی فائدہ نہیں۔ صحیح رويه یہ ہے کہ صورتِ حال کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ كركےمواقع كو دریافت کیا جائے، اور لوگوں کو بتایا جائے کہ مسائل کے باوجود کون سے مواقع موجود ہیں، جن کو اویل (avail) کرکے ترقی کا سفر جاری رکھا جاسکتا ہے۔
حق گوئی و بے باکی كے الفاظ اپنے سطحی رویے پر پردہ ڈالنے کے لیے هوتے هيں۔یہ ان لوگوںکا کام ہے، جو اعلیٰ ادب کی تخلیق نہیں کر سکتے۔جو لوگ اس قسم کی چیزوں کو لکھیں، اور جو لو گ اس قسم کی چیزوں کو پڑھیں، وہ دونوں اپنے وقت کو ضائع کرنے والے لوگ ہیں، وہ جانتے نہیں کہ اعلیٰ ذوق کس چیز کا نام ہے۔ اس قسم کا ادب بلاشبہ احتجاج اور چیخ و پکار کے لیے وجود میں آتا ہے۔ یہ بلاشبہ وقت کا ضیاع ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ لكھنا نه جانتے هوں، ان کے لیے زیادہ بهترکام یہ ہے کہ وہ دو رکعت نماز پڑھ کر لوگوں کے لیے دعا کریں۔ وہ خود اپنی شخصیت میں کمیوں کو دریافت کریں، اور اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔
حق گوئی یہ ہے کہ آپ زیر بحث موضوع کا علمی مطالعہ کریں، اس سلسلے میں ٹھوس دلائل جمع کریں، اور پھر یہ جاننے کی کوشش کریں کہ علمی ذوق کیا چیز ہے۔ اس کے بعد مثبت اسلوب میں مضامین لکھیں، جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے۔ عام طور پر جس چیز کو حق گوئی و بے باکی کہا جاتاہے، وہ ردعمل (reaction) ہوتا ہے، نہ کہ حق گوئی و بے باکی۔