جہنم کی طرف
بعد کے زمانے کے بارے میں ایک لمبی روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اس کا ایک جزء البخاری کے الفاظ میں یہ ہے:دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ، مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا (صحیح البخاری، حدیث نمبر7084)۔ یعنی اس وقت کچھ پکارنے والے ہوں گے جہنم کے دروازے پر، جو لوگ بھی ان کی بات مانیں گے، وہ ان کو جہنم میں پھینک دیں گے۔
یہ حدیث امت مسلمہ کے دور زوال کے بارے میں ہے۔ یعنی دور زوال میں امت مسلمہ میں جو نئی باتیں پیدا ہوں گی، ان میں سے ایک بات یہ ہوگی کہ کچھ لوگ بظاہر اسلام کا نام لیں گے۔ مگر وہ لوگوں کو اسلام کے نام پر غیر اسلام کی طرف پکاریں گے۔ ان کی یہ پکار بظاہر اسلام کے نام پر ہوگی، مگر حقیقت کے اعتبار سے ان کی منزل جہنم ہوگی۔ جو ان کی پکار پر لبیک کہے گا، وہ آخر کار اپنے آپ کو جہنم کے دروازے پر پائے گا۔
اصل یہ ہے کہ دورِ زوال میں امت ایسا نہیں کرے گی کہ وہ اسلام کو چھوڑدے۔ بلکہ یہ ہوگا کہ امت عملاً دوسری قوموں کی طرح ایک قوم بن جائے گی۔ لیکن امت کے لوگ اپنی قومی سرگرمیوں کے لیےایسے الفاظ بولیں گے، جو بظاہر اسلامی ڈکشنری کا حصہ معلوم ہوں لیکن حقیقت کے اعتبار سےوہ قومی ڈکشنری کا حصہ ہوں گے۔ مثلا ً وہ اپنی قومی لڑائی کو جہاد کا نام دیں گے، وہ قومی سرگرمیوں کو اسلامی سرگرمیوں کا نام دیں گے، وہ اپنی قومی سیاست کو اسلامی خلافت کہیں گے، وغیرہ۔موجودہ زمانے میں اس قسم کی غیر اسلامی پکار کی بہت سی مثالیں پیدا ہوئی ہیں۔
موجودہ دور میں انهي قسم كي باتوں کو عملاً امت مسلمہ کا دینی نصب العین قرار دے کر اس کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں، مگر یہ غیر ِ اسلام کو اسلام کا نام دیناہے۔ ہر وہ بات جو قرآن و حدیث کے واضح دلائل سے ثابت نہ ہو، دین کے نام پر اس کو پھیلاناباطل ہے۔ اس قسم کی بے بنیاد باتیں عملاً نہ صرف لوگوں کو حقیقی دین سے دور کردیتی ہیں، بلکہ ان کے اندر نفرت اور تصادم کا جذبہ بھی ابھارتي ہیں، جو بذاتِ خود ایک فتنه انگيز اورناپسندیدہ رویہ ہے۔