ایک انٹرویو

(زیر نظر انٹر ویو مسٹر یوگندر سکند (پیدائش 1967) نے 10اگست 2007 کو لیا تھا۔ اس کی ریکارڈنگ بھی ہوئی تھی، جو سی پی ایس سینٹر میں موجود ہے۔ اس انٹرویو کا خلاصہ افادیت کے پیش نظر دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے)

س:    آپ مدارس کے نظام کو کس طرح دیکھتے ہیں؟اس وقت مدارس کے نصاب ونظام میں اصلاح کی ضرورت کی بات ہو رہی ہے؟

ج:     بعض دوسرے لوگو ں کی طرح میں مدارس کا مخالف یا اس کا ناقد نہیں ہوں۔ مسلمانوں کو مذہبی اور سیکولر دونوں نظام ہائے تعلیم کی ضرورت ہے۔ مسلم بچوں کو دونوں طرح کے مضامین کی واقفیت ہونی چاہیے۔ لیکن تمام مسلم طلبہ کے لیے یہ مطلقاً ضروری نہیں کہ وہ کل وقتی طور پر مدرسہ جاکر عالم بننے کی تربیت حاصل کریں۔ البتہ اتنا ضروری ہے کہ سماج کا ایک طبقہ علم دین حاصل کرے تاکہ مذہبی تعلیم کے حصول کی روایت باقی رہے۔ ہمیں مدارس کے تربیت یافتہ ایسے علما کی ضرورت ہے جو قرآن، حدیث، فقہ اور عربی زبان کے واقف کار ہوں۔ جہاں تک مدارس میں اصلاح کی ضرورت کا سوال ہے حقیقت یہ ہے کہ میں مدارس کی جدید کاری میں یقین نہیں رکھتا۔ آپ قرآن و حدیث کی جدید کاری نہیں کر سکتے۔اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس سیاق میں جدیدکاری یا جدت پسندی کی بات بالکل بے محل اور غیر ضروری ہے۔جدیدکاری کے تعلق سے میں کہنا چاہوں گا کہ ہمارے جدید اسکول اور یونیورسٹیوں میں بھی اصلاح کی ضرورت ہے۔ اس نکتے کو وہ لوگ جو مدارس میں اصلاح کے زبردست طور پر حامی ہیں،فراموش کر دیتے ہیں۔میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تعلیم کا کوئی بھی نصاب ہر طرح سے مکمل نہیں کہا جا سکتا۔ نصاب سے زیادہ اہمیت اس کو پڑھانے والے کی ہے۔اس لیے کہ کتابیں نہیں پڑھاتیں اساتذہ پڑھاتے ہیں۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مدارس میں فلسفے اور منطق کی صدیوں پرانی یونانی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یونیورسٹیز کے انگریزی شعبے میں بھی صدیوں سال پہلے لکھی ہوئی کلاسیکل کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ میری نظر میں نصاب کا مسئلہ زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ اصل مسئلہ باصلاحیت اور ذمہ دار اساتذہ کا ہے۔ ہمیں اصلاً ان کی ضرورت ہے۔

س:    تو کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مدارس کے طلبہ کو جدید مضامین سے روشناس کرانے کی ضرورت نہیں ہے؟

ج:     میری تجویز یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے علاحدہ ایسے تعلیمی ادارے قائم کیے جانے چاہئیں جہاں مدارس کے طلبہ فراغت کے بعد جدید مضامین کی تعلیم حاصل کر سکیں۔خاص طور پر مختلف زبانیں جیسے انگریزی ، ہندی، وغیرہ۔خود میں نے ایک روایتی مدرسے میں تعلیم مکمل کی اور پھر اپنے طور پر انگریزی سیکھی اور دوسرے جدید مضامین پڑھے۔ میرا خیال ہے کہ مدارس کے نصاب کے ساتھ ساتھ اگر مدارس کے طلبہ کو جدید مضامین پڑھنے پر مجبور کیا جائے تو بلاشبہ یہ ان پر بوجھ بن جائے گا جسے وہ نہیں اٹھا پائیں گے۔ اس سے مدرسے کا تعلیمی نظام بکھر جائے گا۔

س:   حالیہ دنوں میں مدارس کے فارغ طلبہ کے لیے اس طرح کے ادارے جس کا آپ نے حوالہ دیا ہے، قائم کیے گئے ہیں، آپ اس ظاہرے کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟

ج:     میری نظر میں یہ نہایت خوش آئند قدم ہے۔ اگرچہ اسے مزید منظم انداز میں کیا جانا چاہئے۔ اس طرح کے اداروں میں بہرحال ایسے اساتذہ کی کمی ہے جو پوری اسپرٹ کے ساتھ تدریسی ذمہ داری نبھانے پر کمربستہ ہوں۔ ہمارے دور میں مدرسۃ الاصلاح میں ایسے اساتذہ تھے۔ انہوں نے ہمارے اندر تلاش و تجسس کی روح پیدا کی۔ تلاش وتجسس کی یہی روح اصل میں علم ومعرفت کی بنیاد ہے، اس کے بغیر کوئی شخص تعلیم کی راہ پر ترقی نہیں کر سکتا۔ اس روایت کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ہمارے پاس مدارس کے اساتذہ کی ٹریننگ کے لیے کوئی ادارہ نہیں ہے۔ ضرورت ہے کہ اساتذۂ مدارس کوچھوٹے بچوں کی تعلیم و تربیت اور اس سے متعلقہ امور کی ٹریننگ دی جائے۔ میرے خیال میں یہ ایک اہم اِشو ہے جس پر مسلم تنظیموں کو توجہ دینی چاہیے۔

س:    مدرسہ کے فارغ علما اور یونیورسٹی کے تربیت یافتہ دانش وروں کے درمیان جو شدید دوئی اور ثنویت پیدا ہو گئی ہے، آپ کی رائے میں اسے کس طرح ختم کیا جا سکتا ہے؟

ج:     میرے بچپن میں یہ دوئی اتنی واضح نہیں تھی۔ اس وقت سیکولر تعلیم گاہیں اخلاقی اقدار سے اس قدر دور نہیں تھیں۔ لیکن اب صورتحال بہت زیادہ افسوسناک ہے۔ دونوں طبقوں کے درمیان اس دوئی اور کھائی کو دور کرنے اور پاٹنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں نظام تعلیم کےطلبہ و اساتذہ کے درمیان خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، زیادہ سے زیادہ اختلاط اور میل جول ہو۔ ماضی میں ایسا ہوتا تھا۔ بہت سے ہندو مدرسوں میں پڑھتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں ہوتا۔ چونکہ اب ان دونوں طبقوں کے درمیان اس نوع کا میل ملاپ اور باہمی قربت باقی نہیں رہی، اس لیے ان دونوں کے اندر مفاہمت کی کمی پائی جاتی ہے۔

س:    بعض علما آپ کی اس رائے پر چیں بہ جبیں ہوں گے اور کہیں گے کہ اس طرح کے میل جول سے مدرسہ کے طلبہ کی مذہبی نفسیات پر برا اثر مرتب ہوگا۔ اس تعلق سے کیا کہنا چاہیں گے؟

ج:   مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے۔ حضرت عمر فاروق کے بارے میں منقول ہے کہ وہ ہر کسی سے  سیکھتے تھے اور ان کا یہ سیکھنا مختلف قسم کے لوگوں سے میل جول کے ذریعہ ہوتا تھا۔ دوسروں کے ساتھ میل جول کے ذریعہ آپ اپنی اخلاقیات کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔نیز اس کے ذریعہ آپ دوسرے لوگوں کی صحیح شناخت اور ان کا احترام بھی کر سکتے ہیں۔ مدارس اور ان کے طلبہ کو دوسروں کے ساتھ میل ملاپ پر مائل کرنے اور ان کو مدرسہ کی چہاردیواری سے باہر نکالنے کا سب سے اہم طریقہ یہ ہے ان کے اندر مشنری اسپرٹ بھر دی جائے۔ اس مقصد کے لیے مدارس کی طرف سے کانفرنسیں اور سیمینار منعقد کیے جائیں جن میں مدارس اور یونیورسٹیز کے لوگوں کو، جن میں مسلمان اور غیر مسلم دونوں شامل ہوں، بلایا جائے۔ یہ طریقہ دونوں طرف معلومات کے دروازے کو کھولنے اور باہمی غلط فہمیوں کو دور کرنے کا زبردست ذریعہ ہوگا۔

خود میری مثال لیجیے! میں روزانہ مختلف مذاہب اورسماجی پس منظر کے لوگوں سے ملتا ہوں۔ میں اسے اللہ کی نعمت سمجھتا ہوں۔ کیونکہ اس عمل کے ذریعہ میں مختلف طرح کی معلومات، دوسروں کے تعلق سے انسانی جذبۂ یکانگت، نئے تجربات اور اخلاقی اقدار سیکھتا اور حاصل کرتا ہوں۔(جاری)

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom