سیاسی اقتدار
فطرت کا ایک قانون قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے : قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (3:26)۔ تم کہو، اے اﷲ، سلطنت کے مالک تو جس کو چاہے سلطنت دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے، اور تو جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلت دے۔ تیرے ہاتھ میں ہے سب خوبی۔ بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
سیاسی اقتدار اجتماعی نظم (administration) کا ایک حصہ ہے۔ وہ عمومی مصلحت کے تحت کبھی ایک گروہ کو ملتا ہے، اور کبھی دوسرے گروہ کو۔ اقتدار خواہ کسی گروہ کو دیا جائے، یا اس سے واپس لے لیا جائے، دونوں عارضی ذمے داری کے معاملات ہیں۔ دونوں فریقوں کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کو مثبت سوچ کے تحت قبول کریں، جس کو دیا جائے، وہ بھی، اور جس سے واپس لیا جائے ، وہ بھی۔
اس اصول کی روشنی میں مسلم تاریخ کا مطالعہ کیجیے۔ مسلم تاریخ کا آغاز ساتویں صدی عیسوی کے ربعِ اول میں ہوا۔ تقریباً ایک ہزار سال تک قدیم آباد دنیا کا ایک متعین رقبہ مسلم قوموں کے زیر انتظام رہا۔ تقریباً ایک ہزار سال کے بعد یہ اقتدار ان سے لے کر دوسری قوموں کی طرف منتقل کردیا گیا۔ بالفاظ دیگر مسلمانوں کا اقتدار دنیا پر قبل از سائنسی تہذیب دور(pre-scientific age) میںرہا، اور ان سے اقتدار لے لیا گیا جب کہ سائنسی تہذیب کا دور(post-scientific age)آگیا۔ سائنسی تہذیب کو وجود میں لانے والے وہ لوگ تھے، جن کو مغربی اقوام کہا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن و سنت میں جو حوالے ملتے ہیں، ان کا مطالعہ تطبیقی انداز (applied way) میں کیا جائے تو اس معاملے کی حکمت واضح طور پر معلوم ہوتی ہے۔
جب قرآن اترا اور امت محمدی کو اس کی ذمے داری سونپی گئی تو اس ذمے داری کے دو بڑے حصے تھے۔ ایک، حفاظت حق (الحجر، 15:9) اور دوسرا، تبیین حق(فصلت، 41:53)۔ تاریخ بتاتی ہے کہ امت مسلمہ کو جو اقتدار دیا گیا، ا س کو انھوں نے حفاظتِ دین کے معاملے میں بحسن و خوبی انجام دیا، لیکن فطرت کے قانون (الحدید، 57:16)کے مطابق، امت مسلمہ پر زوال کا دور آیا۔ اب ان کا حال وہ ہوگیا جو قرآن میں قوم یہود کے حوالے سے ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْراةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوها(62:5)۔ یعنی، ان لوگوں کو توراۃ کا حامل بنایا گیا پھر انھوں نے اس کو نہ اٹھایا۔
موجودہ دور میں امت مسلمہ اپنی مسجدوں ، اپنے مدرسوں، اور اپنے اداروں کی شکل میں دین کے محافظ تو بن گئے، لیکن زمانے کے اعتبار سے دین کی تبیین مزید کے لیے وہ نااہل ہو گئے۔اس کی ایک ظاہری وجہ یہ ہے کہ اجتہاد کے فقدان کی بنا پر وہ بصیرت زمانہ سے محروم ہو گئے اور عصری تقاضے کے مطابق دین کی تطبیق سے قاصر رہے۔
اب اللہ تعالیٰ کے قانون استبدال(محمد، 47:38)کے مطابق، حالات میں تبدیلی آئی ۔ ملت مسلمہ کے لوگ فارم کی سطح پر دین کا حفاظتی ڈھانچہ بدستور برقرار رکھے ہوئے تھے۔ لیکن زمانے کے تقاضے کے مطابق دین کی تبیینِ مزید (فصلت، 41:53) میں وہ مکمل طور پر ناکام ہوگئے تھے۔ یعنی، قرآن کے الفاظ میں آیات و انفس کی دریافت کے ذریعے حق کی تبیینِ مزید کرنا ۔
تاریخ کا یہ مرحلہ (juncture) انیسویں صدی کے خاتمہ اور بیسویں صدی کے آغاز کے وقت پیش آیا ۔ اب اللہ تعالیٰ نے تقسیم کار کے اصول کو استعمال کیا، یعنی مغربی قوموں کو تائید کا رول (supporting role) اور امت مسلمہ کے واسطے دین کے لیےپیدا شدہ مواقع کو ممکنہ طور پر اویل (avail) کرنے کارول ۔اس تائیدی رول کا ذکر حدیث کی کتابوں میں واضح طور پر موجود ہے۔
اس معاملے میں صحیح البخاری (حدیث نمبر 3062)کی روایت سے ایک اہم بات معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ بالفرض یہ مؤیدین امت مسلمہ کو فاجر دکھائی دیں ، تب بھی دین کے معاملے میں اپنے مؤید کی حیثیت سے ان کو قبول کرنا چاہیے۔ اگر مسلمان اس قبولیت میں ناکام رہیں تو وہ خود اپنی ذمےداری کو پورا کرنے میں ناکام ہوجائیں گے۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ یہی وہ مقام ہے، جہاں مسلمان اپنی ذمے داری کو اداکرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئے۔