سچا شکر
انسان کے لیے سب سے مشکل چیز اعتراف ہے۔ اعتراف کی حقیقت شکر گزاری ہے۔ یعنی دوسرے انسان سے جو چیز حاصل ہوئی ہے، اس کا اعتراف کرنا۔ انسان ہر ملی ہوئی چیز کو اپنی کوشش کا نتیجہ سمجھتا ہے، اس لیے وہ دوسرے کا اعتراف نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ جو چیز پائی جاتی ہے، وہ دوسروں کا عدم اعتراف ہے، اور سب سے کم جو چیز پائی جاتی ہے، وہ دوسروں کا اعتراف ہے، یعنی شکر اور ناشکری۔ انسان کا عُجب(pride) اس کے لیے مانع بن جاتا ہے کہ وہ دوسرے کا اعتراف کرے۔ یہی وجہ ہے کہ جس کو دیکھیے، وہ ناشکری کی بولی بولتا ہے۔ شکر کی بولی بولنے والا مشکل سے کوئی دنیا میں ملے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ سچا شکر ہمیشہ اپنی نفی کی قیمت پر ادا ہوتا ہے۔ چوں کہ بیشتر لوگ اپنی نفی کی قیمت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے، اس لیے وہ شکر یا اعتراف بھی نہیں کرپاتے۔ جب آپ کسی کا اعتراف کرتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ ایک ملی ہوئی چیز کا کریڈٹ دوسرے شخص کو دیتے ہیں۔
آج آپ لوگوں کا سروے کریں، تو آپ پائیں گے کہ ہر آدمی شکایت کی بولی بولتا ہے۔ میں نے ذاتی طور پر بار بار اس حقیقت کا تجربہ کیا ہے۔ مثلاً کئی بار میں نے جلسہ عام میں لوگوں سے پوچھا کہ آپ کی معاشی زندگی کل کیسی تھی، اور آج کیسی ہے۔ تقریباً ہر ایک نے بتایا کہ اس کی معاشی زندگی پہلے کے مقابلے میں آج بہت بہتر ہے۔ مگر اس سے سماج کے عام حالت پر گفتگوکریں،تو وہ شکایت کرے گا، وہ شکر کی بولی نہیں بولے گا۔
مثلاً دلی میں ایک صاحب میرے آفس میں آئے۔ وہ نئی کار پر بیٹھ کر آئے تھے۔ہمارے آفس میں آتے ہی وہ شکایت کی بولی بولنے لگے۔ میں نے جب ان کے ذاتی حالات پوچھے ، تو ہر بات پر وہ الحمدللہ کہتے تھے۔ گویا اپنی ذات کے لیے ان کی زندگی الحمد للہ تھی، اور دوسروں کے لیے ان کے پاس شکایت کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ حقیقی زندگی وہی ہے، جو فرد اپنی سطح پر تجربہ کرتا ہے، نہ کہ وہ جو انسان کسی سے سنتا ہے۔