خیر کا راستہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : لَا يُؤْمِنُ الْعَبْدُ الْإِيمَانَ كُلَّهُ، حَتَّى يَتْرُكَ …الْمِرَاءَ وَإِنْ كَانَ صَادِقًا(مسند احمد، حدیث نمبر 8766)۔ یعنی، ایک انسان مکمل ایمان کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا ، یہاں تک کہ وہ بیجا تکرار کو ترک کردے اگرچہ وہ سچائی پر ہو۔
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت ان الفاظ میں آئی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : أَنَا زَعِيمٌ بِبَيْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ وَإِنْ كَانَ مُحِقًّا (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 4800)۔ یعنی، میں اس آدمی کے لیے جنت کے اطراف میں ایک گھر کی ضمانت لیتا ہوں جو بیجا بحث کو ترک کردے اگرچہ وہ حق پر ہو۔
غور سے دیکھا جائے تو یہی وہ طرزِ عمل ہے جو انسانی سماج کو ایک پُرامن سماج بناتا ہے۔ ’’جنت کے اطراف میں ایک گھر‘‘ سے مراد ممکنہ طور پر اسی قسم کا گھرہو سکتا ہے، جس کا تصور آج کے دور میں فارم ہاؤس وغیرہ کی شکل میں کیا جاتا ہے۔
A farmhouse is typically a property situated in an agricultural setting, surrounded by greenery, and used for residential purposes. These charming abodes are often nestled amid farmland or landscaped gardens in rural areas, providing a serene and picturesque environment. Imagine waking up to the sound of birds chirping and enjoying fresh air away from the hustle and bustle of city life. In India, farmhouses have gained popularity as weekend getaways or second homes. They offer a peaceful retreat where families and friends can relax, unwind, and connect with nature.
یعنی ایک انسان اگر حق پر رہتے ہوئے بھی اپنے ایگو (ego)کو کنٹرول کرکے جھگڑے کے موقع پر خاموشی کا طریقہ اختیار کرلے تو اس کو جنتی گھر ملنے کے علاوہ ایک اور گھر بھی ملے گا، یہ گھر صرف اس جنتی کے اعزاز و اکرام میں اضافہ کے لیے ہوگا ، نہ کہ دنیا کی مانند ریگولر گھر میں بورڈم (boredom)کا شکار ہونے کے بعد ریلکس (relax) ہونے کے لیے۔
ان دونوں حدیثوں میں بحث و تکرار كو ڈسکرج (discourage)کرنے سے مراد وہ بحث اور تکرار ہے جو منفی یا بے نتیجہ بحث ہو۔ موجودہ دور میں ایسے علما اور مقررین کی کثرت ہوگئی ہے جو اپنی تحریر اور تقریر سے سماج میں نفرت پیدا کرتے ہیں۔ ان کی باتوں سے عام لوگ اسلام کے بارے میں کنفیوزن میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ آپس میں نفرت پیدا ہو جاتی ہے مثلاً مناظرہ بازی، یا کفر و ضلالت کا حکم لگانا، یا حق کے نام پر دو یا زیادہ عالموں کا بذریعہ دلائل ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنا ، وغیرہ۔ سوشل میڈیا سے پہلے اس کا نمونہ عام طور پر مناظرہ کے اسٹیجوں پر دیکھنے کو ملتا تھا، یا فتووں میں ۔ آج کل اس کا نمونہ عام طور پر جلسوں میں دیکھنےکو ملتا ہے یا سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر۔
یہ تمام کام بظاہر دین کے نام پر کیے جاتے ہیں، مگر وہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے عام لوگوں کے لیے دین سے دوری کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی بھی رسول کو اس لیے نہیں بھیجا کہ وہ انسانوں کو خدا کے دین کے تعلق سے کنفیوزن میں مبتلا کرے، یا ان کا کوئی عمل خدا کے دین کی بدنامی کا ذریعہ بن جائے ۔ اس لیے موجودہ دور میں جاری اِس قسم كي كج بحثياں ابلیس کو خوش کرنے کا ذریعہ تو بن سکتي ہیں، مگر وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ عمل نہیں ہوسکتيں۔
انبیا کا وارث ہونے کی حیثیت سے ایک عالم دین کو کیسا ہونا چاہیے، وہ قرآن کی ایک آیت اور اس کی تفسیر سے سمجھا جاسکتا ہے۔ قرآن میں ہے : وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَمَا كُنْتُ (19:31)۔ یعنی ،حضرت عیسیٰ نے کہا کہ میں جہاں کہیں بھی رہوں اللہ تعالیٰ نے مجھ کو برکت والا بنایا ہے ۔ مجاہد تابعی نے بابرکت کی تشریح خیر کا معلم ( مُعَلِّمًا لِلْخَيْرِ)سے کی ہے (العلم لابی خیثمہ زُہیر بن حرب 30)۔ انطباقی معنی (applied meaning)کے اعتبار سے اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی عالمِ دین وہ ہے جو سماج میں خیر اور بھائی چارہ اور امید اور یقین کا داعی بن کر رہے، نه كه شر اور نفرت اور شک اور کنفیوزن کا تاجر بن کر۔(مولانا فرہاد احمد)