تلاش حق
قرآن کی سورہ الضحی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے : وَوَجَدَكَ ضَالاًّ فَهَدى (93:7) یعنی خدا نے تم کو متلاشی پایا تو اس نے تم کو راہ دکھائی :
Did God not find you wandering, and give you guidance ?
قرآن کی اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ صرف ایک مخصوص فرد کی بات نہیں، بلکہ وہ ہر انسان کی بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان پیدائشی طور پر متلاشی(seeker) ہوتا ہے۔ اگر انسان اپنی فطرت کو اس کی ابتدائی حالت پر محفوظ رکھے تو ہر انسان حق کا متلاشی ہوگا، اور اپنی فطرت کے زور پر سچائی تک پہنچ جائے گا۔ حق انسان کے لیے کوئی اجنبی چیز نہیں، وہ ہر انسان کی اپنی فطرت کی آواز ہے۔ لیکن عملاً یہ ہوتا ہے کہ پیدا ہونے کے بعد انسان ایک خارجی ماحول میں زندگی گزارتا ہے۔ یہ خارجی ماحول ہر ایک انسان کو متاثر کرتا رہتا ہے۔ یہ عمل مسلسل طور پر جاری رہتا ہے، یہاں تک کہ انسان کی فطرت خارجی اثرات سے مکمل طور پر ڈھک جاتی ہے۔ انسان کا حال یہ ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی فطرت کی روشنی میں سوچنے کے بجائے خارجی اثرات کے تحت سوچنے لگتا ہے۔ اس عمل کا نام کنڈیشننگ (conditioning) ہے۔
ایسی حالت میں ہر انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی عقل کو استعمال کر کے اس معاملے کو سمجھے۔ وہ محاسبہ(introspection) کے ذریعے اپنی ڈی کنڈیشننگ کرے۔ وہ اپنے آپ کو دوبارہ مسٹر کنڈیشنڈ (Mr. Conditioned) سے مسٹر نیچر (Mr. Nature) بنائے۔ ایسا کرنے کے بعد ہی آدمی اس رہنمائی سے فائدہ اٹھا سکتاہے ، جو اللہ نے اس کے لیے اپنی کتاب اوررسول کی سنت کی صورت میں مہیا فرمائی ہے۔ جو آدمی اپنے آپ پر یہ عمل جاری کرنے کے لیے تیار نہ ہو، اس کو کبھی ہدایت کی توفیق نہیں مل سکتی۔ ہدایت کا تعلق اولاً اپنی ذات سے ہے اور اس کے بعد خارجی رہنمائی سے ۔