خدا کا خوف

اسلام میں خوفِ خدا کا تصور ایک مثبت تصور (positive concept)ہے۔ یہ خوف برائے خوف نہیں ہے، یہ خوف برائے ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) ہے۔ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ اپنے حالات کی بنا پر کامل طور پر کنڈیشننگ (conditioning) کا کیس بن جاتا ہے۔ اس کنڈیشننگ کو توڑنے کے لیے ایک طاقتور محرک (strong incentive) درکار ہے، اور اس قسم کا طاقتور محرک خدا کے خوف کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ خوفِ خدا کا مسئلہ صرف موجودہ دنیا کے لیے ہے، آخرت کے لیے نہیں۔ آخرت میں جنت میں وہی شخص جائے گا جس کی کنڈیشننگ مکمل طور پر ٹوٹ چکی ہوگی۔ اس لیے جنت میں خوف کے لیے کوئی جگہ نہیں (فاطر، 35:34)۔

ہر آدمی کی پرورش ایک ماحول میں ہوتی ہے۔ آدمی روزانہ ایسے ماحول سے اثر قبول کرتا ہے، یہاں تک کہ مکمل طور پر ایک متاثر ذہن (conditioned mind)بن جاتا ہے۔ اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنے اس ذہن کو بدلے اور فطری حالت پر اپنے آپ کو قائم کرے ۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن کی اس آیت میں بیان کیا گیا ہے : قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلى شاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدى سَبِيلاً (8417)۔ یعنی، کہو کہ ہر ایک اپنے طریقہ پر عمل کر رہا ہے۔ اب تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ کون زیادہ ٹھیک راستہ پر ہے۔ قرآن کی اس آیت میں شاکلہ سے مراد وہی چیز ہے جس کو آج کل کی زبان میں مائنڈ سیٹ (mindset) کہا جاتا ہے۔ ہر پیدا ہونے والا آدمی اپنے حالات کے زیر اثر غیرربانی شاکلہ میں جینے لگتا ہے۔ صحیح آدمی وہ ہے جو اس حقیقت کو جانے اور محاسبہ کے ذریعے اپنے آپ کو ربانی شاکلہ پر قائم کرے۔

محاسبۂ خویش (self introspection)کا یہ عمل ایک نہایت مشکل عمل ہے۔ اس عمل کے لیے نہایت طاقتور محرک درکار ہے۔ خوفِ خدا کے ذریعے یہی محرک انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ خوفِ خدا کے سوا کوئی اور چیز اس عمل کا محرک نہیں بن سکتی۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom