مستقبل کی طرف
قرآن کی سورہ البقرہ میں بتایا گیا ہے کہ اس دنیا میں ہر فرد اور ہر گروہ کو لازماً کوئی نہ کوئی نقصان پیش آتا ہے (2:155)۔ اس حالت میں انسان کو کیاکرنا چاہیے۔ یہ رہنمائی اگلی آیت میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے : الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قالُوا إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ (2:156) ۔ یعنی، جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے نقصان کو خدا کے حوالے کرکے اپنے مستقبل کے لیے حقیقت پسندانہ بنیاد پر ازسر نو پلاننگ کی جائے۔ یہی سنت رسول ہے اور یہی فطرت کا قانون بھی۔
نبوت کے تیرھویں سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل مکہ کے ظلم کی بنا پر مکہ کو چھوڑنا پڑا۔ آپ نے اہل مکہ کے ظلم کو بھلا کر مدینہ میں اپنے مشن کی نئی منصوبہ بندی کی۔ غزوۂ احد (3ہجری)میں 70 صحابہ شہید ہوئے اور بہت سے لوگ زخمی ہوئے۔ آپ نے دوبارہ یہی کیا کہ اس حادثے کو بھلا کر اپنے پیغمبرانہ مشن کی نئی تنظیم کی، وغیرہ۔
یہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک عظیم سنت ہے۔ تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس سنت رسول کو دل سے قبول کریں اور اس کے مطابق اپنے عمل کا منصوبہ بنائیں۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے ساتھ ہر جگہ اس قسم کے نقصانات پیش آرہے ہیں۔ مگر مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ اس سنت رسول کو بھلائے ہوئے ہیں۔ وہ ماضی کی شکایتوں میں جی رہے ہیں اور مستقبل کے لیے نئی منصوبہ بندی سے غافل ہیں۔ یہ طریقہ سراسر غیر اسلامی طریقہ ہے۔ یہ طریقہ مسلمانوں کو ہر گز کوئی فائدہ دینے والا نہیں۔ وہ صرف ان کے نقصان میں مزید اضافے کا سبب بنتا رہےگا۔ اس معاملے میں مسلمانوں کے لیے ایک ہی راستہ ہے۔ یہ کہ وہ اپنی اس منفی روش کو بد لیں اور مثبت سوچ کے ساتھ اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی کریں۔ اس عمل میں تاخیر نقصانات میں مزید اضافے کے سوا مسلمانوں کو کچھ اور دینے والا نہیں۔ ماضی کی تلخ یادوں کو بھلانا ہی اس کا مسئلہ کا حل ہے۔ اس حکمت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے : لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى مَا فاتَكُمْ (57:23) ۔ یعنی، تاکہ تم اس پرغم نہ کرو جو تم سے کھویا گیاہے۔