کامیابی کا اصول

امریکا کے ڈاکٹر مائکل ہارٹ (b. 1932)نے 1978 میں ایک کتاب لکھی، جس کا نام تھا :

The 100: A Ranking of the Most Influential Persons in History

اس کتاب میں ڈاکٹر مائکل ہارٹ نے پوری انسانی تاریخ سے سو آدمیوں کا انتخاب کیا، جو ان کے نزدیک تاریخ کے سب سے بڑے انسان تھے۔ ان کی اس فہرست میں پہلا نام محمدبن عبد اللہ کا تھا، جو ان کے نزدیک پوری تاریخ انسانی کے سب سے زیادہ کامیاب انسان تھے۔ پیغمبر اسلام محمد بن عبداللہ کے بارے میں ان کے یہ الفاظ تھے

He was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels.

یعنی وہ تاریخ میںواحد انسان ہیں، جو دنیوی اور مذہبی دونوں اعتبار سے بہت زیادہ کامیاب انسان تھے۔ڈاکٹر مائکل ہارٹ نے یہ تو لکھا ہے کہ پیغمبر اسلام انسانی تاریخ کے سب سے کامیاب انسان تھے۔ مگر انھوں نےیہ نہیں بتایا کہ اس عظیم کامیابی کا راز کیا تھا۔

برٹش رائٹر ای ای کلیٹ (E E Kellett ) جس کی پیدائش1864 میں ہوئی اور وفات1950 میں ہوئی۔ اس نے پیغمبر اسلام کی عظیم کامیابی کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہےکہ اس کا سبب یہ تھا کہ انھوں نے مصائب کا سامنا اس عزم کے ساتھ کیا کہ ناکامی سے کامیابی کو نچوڑا:

He faced adversity with the determination to ring success out of failure.

مگر ان الفاظ سے متعین طور پرمعلوم نہیں ہوتا کہ پیغمبر اسلام کی کامیابی کا راز کیا تھا۔ راقم الحروف نے اس اعتبار سے سیرت کا مطالعہ کیا ہے۔ میری دریافت کے مطابق، اس کا راز یہ تھا کہ آپ پر ہر قسم کی مشکلات پیش آئیں۔ لیکن آپ نے کبھی ردّ عمل کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔ آپ کا طریقہ صرف ایک تھا — رد عمل کے بجائے نتیجہ رخی پلاننگ۔

پیغمبر اسلام کو اپنی 23 سالہ پیغمبرانہ زندگی میں بار بار فریق ثانی کی طرف سے ظلم اور مخالفت کا سامنا پیش آیا۔ لیکن آپ نے کبھی رد عمل (reaction) کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔ آپ نے ہر موقع پر، ظلم اور مخالفت کے باوجود، منفی ردعمل کے بجائے حکمت پر مبنی منصوبہ بندی کی۔ آپ نے کبھی بھی ٹکراؤ کا راستہ اختیار نہیں کیا، بلکہ ہر حال میں مثبت انداز اپنایا۔

مثلاً قدیم مکہ کے لوگوں نے آپ کو وطن چھوڑنے پر مجبور کیا۔ آپ نے اس کو ٹکراؤ کا ایشو نہیں بنایا۔ بلکہ ٹکراؤ سے ہٹ کر از سر نو اپنے عمل کی مثبت منصوبہ بندی کی۔ اسی طرح فریق ثانی نے احد کی جنگ چھیڑی ۔ اس میں آپ کے ساتھی تقریباً ستر کی تعداد میں قتل کردیے گئے۔ لیکن اس کے بعد آپ نے جوابی طور پر کوئی جنگی کارروائی نہیں کی۔ بلکہ حالات کو پر امن طور پر مینج کرتے ہوئے فریق ثانی سے حدیبیہ کے مقام پرامن کا دس سالہ معاہدہ کر لیا، وغیرہ۔ یہی پالیسی آپ کی پوری زندگی جاری رہی۔

پیغمبر اسلام کا مشن ایک پر امن مشن تھا۔ وہ انسان کی خیر خواہی پر مبنی تھا۔ یعنی لوگوں کو اللہ کی رحمت اور جنت کے راستہ سے با خبر کرنا۔ اس پر امن مشن میں لوگوں سے نفرت اور تشدد کرنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ چنانچہ آپ نے ایک با اصول انسان کی حیثیت سے یہ کیا کہ ہر صورت حال کا مثبت جواب(positive response) دیا۔ آپ کا طریقہ یہ تھا — ظلم کے بدلے میں معافی، تشدد کے جواب میں امن، دشمنی کے جواب میں معتدل تعلقات۔ یہی طریقہ آپ کے مشن کے شایان شان تھا، اور اسی طریقے نے آپ کو تاریخ کی عظیم کامیابی عطا کی۔

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ امت مسلمہ کے لیے نمونہ ہیں (33:21)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امت مسلمہ کو بھی اپنے معاملے میں اسی نمونے کو اختیار کرنا چاہیے۔ یہی کامیابی کا طریقہ ہے۔ کوئی اور طریقہ کامیابی کا طریقہ نہیں۔ اس طریقے میں کامیابی کا راز اس لیے ہے کہ یہی طریقہ فطرت کے مطابق ہے، اور جو طریقہ فطرت کے مطابق ہو، اس دنیا میں کامیابی اسی طریقے کی پیروی سے حاصل ہوتی ہے۔ اس دنیا میں کوئی دوسرا طریقہ کامیابی کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom