تنگی کا جینا
قرآن کی چند آیتیں یہ ہیں : وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكاً وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَعْمى۔ قالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمى وَقَدْ كُنْتُ بَصِيراً ۔قالَ كَذلِكَ أَتَتْكَ آياتُنا فَنَسِيتَها وَكَذلِكَ الْيَوْمَ تُنْسى(20:124-126)۔ یعنی، جو شخص میرے ذکر سے اعراض کرے گا تو اس کے لیے تنگی کا جینا ہوگا۔ اور قیامت کے دن ہم اس کو اندھا اٹھائیں گے۔ وہ کہے گا کہ اے میرے رب، تونے مجھ کو اندھا کیوں اٹھایا، ارشاد ہوگا کہ اسی طرح تمہارے پاس ہماری نشانیاں آئیں تو تم نے ان کو بھلا دیا، تو اس طرح آج تم کو بھلا دیا جائے گا۔
قرآن کی اس آیت میں ’ذکر کے اعراض‘ کا مطلب وہی ہے جس کو آگے ’آیات یعنی نشانیوں سے اعراض‘ کے الفاظ میں بیان کیا۔ دنیا کی زندگی میں انسان کے سامنے ہر وقت طرح طرح کی نشانیاں آتی رہی ہیں۔ یہ نشانیاں اس لیے آتی ہیں، تاکہ انسان ان پر سوچے اور ان سے نصیحت حاصل کرے۔ یہ سوچنا اور نصیحت حاصل کرنا وہ چیز ہے جس سے آدمی کو سچائی کی معرفت حاصل ہوتی ہے، جس سے آدمی اپنی زندگی کی معنویت سمجھتا ہے اور اپنے قول و عمل کے بارے میں درست طریقہ اختیار کرتا ہے۔ مگر جب آدمی ذکر سے اعراض کرے تو وہ درست رویہ اختیار کرنے سے محروم رہ جائے گا۔
’معیشۃً ضنکاً، سے مراد رزق کی تنگی نہیں ہے، بلکہ فکر کی تنگی ہے۔ یعنی وہ صورت حال جب کہ آدمی کا ذہن کھلا ہوا نہ ہو، وہ تعصب اور تنگ نظری جیسی منفی صفات کا شکار ہو۔ ایسا آدمی ذہنی فاقہ (intellectual starvation) میں مبتلا رہے گا۔ وہ چیزوں کو دیکھے گا، مگر وہ اس سے نصیحت نہ لے سکے گا۔ وہ باتوں کو سنے گا، لیکن اس سے وہ کوئی روحانی غذا (spiritual food)حاصل نہ کر سکے گا۔ اس کو تجربات پیش آئیں گے، لیکن تجربات کو ایک متوسم (الحجر،15:75) کی نظر سے دیکھنا اس کے لیے ممکن نہ ہوگا، وغیرہ۔ یہی مطلب ہے اس آیت میں ’معیشتِ ضنک‘ کا۔