ذکر کی عظمت
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں:
قَالَ مُعَاذٌ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم : أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ أَعْمَالِكُمْ، وَأَزْكَاهَا عِنْدَ مَلِيكِكُمْ، وَأَرْفَعِهَا فِي دَرَجَاتِكُمْ وَخَيْرٍ لَكُمْ مِنْ تَعَاطِي الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، وَمِنْ أَنْ تَلْقَوْا عَدُوَّكُمْ غَدًا، فَتَضْرِبُوا أَعْنَاقَهُمْ وَيَضْرِبُوا أَعْنَاقَكُمْ. قَالُوا : بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ. قَالَ : ذِكْرُ اللهِ (مسند احمد، حدیث نمبر 22079)۔ یعنی، معاذ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو نہ بتاؤں کہ تمہارا سب سے اچھا عمل کیا ہے؟ جو تمہارے رب کے نزدیک سب سے زیادہ پاکیزہ عمل ہے، جو تمہارے درجات کو سب سے زیادہ بلند کرنے والا ہے، اور تمہارے لیے سونے چاندی کے صدقے سے بہتر ہے، اور اس سے بھی بہتر کہ تم اپنے دشمن کا سامنا کرو، تو تم ان کی گردنیں کاٹو اور وہ تمہاری گردنیں کاٹیں؟ صحابہ کرام نے کہا : ہاں، اے خدا کے رسول۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کا ذکر۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نشانہ کسی سیاسی نظام کو بدلنا نہیں بلکہ اس کا نشانہ فرد کی تعمیر ہے۔ اگر سیاسی نظام کو بدلنا اسلام کا نشانہ ہو تو قتال ایک لازمی ضرورت بن جاتا ہے، لیکن جب اصل نشانہ فرد کی سوچ کو بدلنا ہو تو اس کے لیے قتال کی کوئی ضرورت نہیں۔ سیاسی نظام کو بدلنے کی راہ میں سب سے پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ قابض حکمراں سے لڑ کر اس کو ہٹایا جائے۔ اس کے بر عکس، فرد کی تعمیر میں قتال ایک غیر متعلق چیز بن جاتا ہے۔ فرد کی تعمیر ہمیشہ پر امن نصیحت کے ذریعے ہوتی ہے، نہ کہ متشد دانہ ٹکراؤ کے ذریعے۔
ذکر سے مراد صرف زبانی ورد نہیں ہے، ذکر سے مراد وہی چیز ہے جس کے لیے قرآن میں تدبر اور تفکر کے الفاظ آئے ہیں۔ ذکر کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ کی آیات پر غور کرے، یہاں تک خدا کی یاد اس کے ذہنی تفکیر (thinking) کا لازمی حصہ بن جائے۔ یہ عمل اس بات کا ضامن ہے کہ اس کے اندر اعلیٰ ربانی کیفیات پیدا ہوں۔ اس کا ذہنی ارتقا مسلسل طور پر جاری رہے، اس کی روحانی زندگی کبھی تعطل کا شکار نہ ہو۔