شیطان کا چیلنج

انسانی تاریخ کے آغاز میں شیطان نے اللہ رب العالمین کے سامنے انسان کے تعلق سے ایک چیلنج کیا تھا۔ قرآن کے الفاظ میں وہ چیلنج یہ تھا: لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إِلَّا قَلِيلًا (17:62)۔ یعنی، اگر تو مجھ کو قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں تھوڑے لوگوں کے سوا اس کی تمام اولاد کو قابو میں کرلوں گا۔

غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کا یہ چیلنج کنڈیشننگ کا چیلنج ہے۔ یعنی انسان کو کنڈیشننگ میں مبتلا کرنا۔ کنڈیشننگ بلاشبہ ہر انسا ن کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔کنڈیشننگ کا نقصان یہ ہے کہ آدمی ذہنی جمود (intellectual stagnation) کا شکار ہوجاتا ہے۔ وہ چیزوں کو ایز اٹ از (as it is) دیکھ نہیں پاتا۔ انسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ اپنی کنڈیشننگ کو توڑ کر سوچ نہیں پاتا۔ حقیقت کے اعتبار سے وہ کنڈیشننگ میں جیتا ہے، لیکن بطور خود یہ سمجھتا ہے کہ میں ایک ثابت شدہ حقیقت پر جی رہا ہوں۔ یہ خود فریبی انسان کے لیے سچائی کو اختیار کرنے میں ہمیشہ سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی ہے۔

 اس کے مقابلے میں ڈی کنڈیشنڈ آدمی حالات سے اوپر اٹھ کر سوچتا ہے۔ اس بنیاد پر وہ سچائی کو اس کی درست شکل میں دیکھتا ہے، اور اس کو قبول کرلیتا ہے۔ہر آدمی کی یہ ایک اہم ذمے داری ہے کہ وہ اپنی کنڈیشننگ کو دریافت کرے، اور وہ سیلف ہیمرنگ کے ذریعے اپنے آپ کو کنڈیشننگ سے فری انسان بنائے۔

کنڈیشنڈ فری انسان کا بیان قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے: إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ (7:201)۔ یعنی، جو لوگ ڈر رکھتے ہیں جب کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال انھیں چھو جاتا ہے تو وہ فوراً چونک پڑتے ہیں اور پھر اسی وقت ان کو سوجھ آجاتی ہے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان کنڈیشننگ سے پاک ہوتا ہے تو شیطان کے فریب (delusion) کو وہ فوراً سمجھ جاتا ہے۔ اس طرح وہ اس سے بچ جاتا ہے کہ حق کو ناحق کے روپ میں دیکھے، اور ناحق کو حق کے روپ میں۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom