نجات کیا ہے
نجات کے معاملے میں ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے : عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللهِ مَا النَّجَاةُ؟ قَالَ : امْلِكْ عَلَيْكَ لِسَانَكَ، وَلْيَسَعْكَ بَيْتُكَ، وَابْكِ عَلَى خَطِيئَتِكَ (سنن الترمذی، حدیث نمبر 2406)۔ یعنی ابو امامہ سے روایت ہے، عقبہ بن عامر نے رسول اللہ سے پوچھا، اے اللہ کے رسول، نجات کیا ہے۔ آپ نے جواب دیا، اپنی زبان پر کنٹرول کرو، تمھارا گھر تمھارے لیے کافی ہو، اور اپنی غلطی پر روؤ۔
اس حدیث رسول پر غور کیجیے۔ بظاہر اس میں تین باتیں کہی گئی ہیں— اپنی زبان پر قابو رکھو، اور دنیا کی طلب کو آخری حد تک کم کرو، اور زیادہ سے زیادہ اپنا احتساب کرو۔ ان تینوں باتوں کا خلاصہ کریں تو یہ ہوگا کہ زیادہ سے زیادہ اللہ کو یاد کرو۔ یہ تینوں صفتیں دراصل اللہ کی معرفت کا نتیجہ ہیں۔
اللہ کی معرفت انسان کے لیے ماسٹر اسٹروک (master stroke) کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ماسٹر اسٹروک کیرم (carrom) کی اصطلاح ہے۔ ماسٹر اسٹروک اس اسٹروک کو کہتے ہیں ، جو کھیل کے تمام گوٹوں کو ہلادے۔ اسی طرح معرفتِ الٰہی اگر انسان کے اندر حقیقی طور پر پیدا ہوجائے تو اس کی پوری شخصیت ہل جائے گی، وہ ہر اعتبار سے اللہ کے رنگ میں رنگ جائے گا (البقرۃ، 2:138)۔ اس کی شخصیت پوری طرح ایک ربانی شخصیت بن جائے گی۔