سازش بے اثر
سازش اپنے ابتدائی مرحلے میں ایک منفعل سوچ (passive thought) ہوتی ہے۔ لیکن جب آپ اس کے خلاف کوئی کارروائی کرکے اس کو اشتعال کے درجے میں پہنچادیں تو اس وقت وہ فعال سوچ (active thought) بن جاتی ہے۔ سازش ابتدائی طور پر کوئی خطرناک بات نہیں ہوتی، لیکن جب نادانی کا طریقہ اختیار کر کے اس کو اشتعال کے مرحلے میں پہنچادیا جائے تو اس کے بعد سازش آپ کے لیے مسئلہ بن جاتی ہے۔ اگر آپ اپنی طرف سے سازش کے لیے جواز (justification) فراہم نہ کریں تو سازش پوری طرح بے اثر بن کر رہ جائے گی۔ اسی لیے قرآن میں آیا ہے : وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئاً (3:120)۔ یعنی، اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرو تو ان کی کوئی تدبیر تم کو نقصان نہ پہنچا سکے گی۔
سازش ابتدائی طور پر ایک کمزور فعل ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سازش ہمیشہ دو طرفہ بنیاد پر چلتی ہے۔ یک طرفہ بنیاد پر سازش کاچلنا ممکن نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص آپ کے خلاف سازش کی بات سوچ سکتا ہے، لیکن سازش کو چلانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اس کے جواب میں ردّعمل کا کوئی فعل نہ کریں۔ جب آپ ایسا کریں تو سازش کرنے والے کو جواز مل جاتا ہے کہ وہ اپنی سازش کو آگے بڑھائے، اور اس کو آپ کے خلاف ایک موثر عمل بنادے۔
مثلا ً کچھ لوگوں نے یہ سازش کی کہ آپ کے اوپر کیچڑ پھینکے۔ تاکہ آپ غصہ ہوکر اس کو پتھر ماریں۔ اس کے بعد اس کو موقع مل جائے کہ وہ مزید کارروائی کرکےآپ کے خلاف لوگوں کو بھڑکائے، اور آپ کے خلاف ایک فضا قائم ہوجائے۔
سازش کا طریقہ ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔ سازش کرنے والا اس لیے سازش کرتا ہے کہ آپ بھڑک کر کوئی ایسافعل کریں ، جس کے بعد سازش کرنے والے کو آپ کے خلاف مزید تخریبی کارروائی کرنے کا موقع مل جائے۔ سازش کا آغاز دوسرے کے ہاتھ میں ہوتا ہے، لیکن سازش کو انجام تک پہنچانا، پوری طرح آپ کے رد عمل پر موقوف ہے۔