ایمانی شخصیت کا ارتقا
درخت ایک نمو پذیر ظاہرہ ہے ۔ درخت کا بیج یا اس کی شاخ جب زرخیز زمین میں لگا دی جائے تو وہ اپنے آس پاس سے غذا لے کر بڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ایک مکمل درخت بن جاتا ہے۔ اس حقیقت کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ ۔ تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا وَيَضْرِبُ اللهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ (14:24-25)۔ یعنی کیا تم نے نہیں دیکھا، کس طرح مثال بیان فرمائی اللہ نے کلمۂ طیبہ کی۔ وہ ایک پاکیزہ درخت کی مانند ہے، جس کی جڑ زمین میں جمی ہوئی ہے اور جس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ وہ ہر وقت پر اپنا پھل دیتا ہے اپنے رب کے حکم سے۔ اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
درخت کا پودا اس طرح بڑھتا ہے کہ وہ زمین سے اپنی غذا لیتا رہتا ہے، مثلاًپانی، کھاد اور منرل (mineral)، وغیرہ۔ درخت کی غذا مادی غذا ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں مومن کی غذا ذہنی غذا ہوتی ہے۔ مومن فکری معنوں میں اپنے آس پاس کی دنیا سے غذا لیتا ہے، اور اس طرح اپنے ایمانی وجود کو مسلسل طور پر بڑھاتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ایک مکمل مومن بن جاتا ہے۔
مومن کی غذا یہ ہے کہ وہ اپنے تجربہ اور مشاہدہ سے ایسے اسباق حاصل کرے، جو اس کے ایمان کو ترقی دینے والے ہوں، جو اس کے اندر آخرت کا یقین پیدا کریں، جو اس کے ایمان کو بصیرت والا ایمان بنائیں، جو اس کے اندر وہ صفت پیدا کرے، جس کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے : أن يكون صَمْتي فِكْراً، ونُطْقي ذِكْراً، ونظري عبرة (جامع الاصول، حدیث نمبر 9317)۔ یعنی، میری خاموشی فکر کی خاموشی ہو، اور میرا بولنا ذکر کا بولنا ہو، اور میرا دیکھنا عبرت کا دیکھنا ہو۔ وہ درخت کو شاداب ہوتے ہوئے دیکھے تو اس کی زبان سے یہ دعا نکلے کہ خدایا مجھے آخرت میں اس طرح سرسبز و شاداب بنادے۔