فخرکی خوراک

بیسویں صدی کے ایک مشہور مسلم شاعر کا شعر ہے:

اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے         مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

        اس شعر کے پہلے مصرعے میں جو بات کہی گئی ہے، اس کا تقاضہ تھا کہ شاعر یہ کہتا کہ اب دنیا کے حالات بدل گئے ہیں۔ اب تم ان تبدیلیوں سے باخبر ہوجاؤ، اور اپنے عمل کی منصوبہ بندی نئے دور کے مطابق کرو۔ ورنہ تم آج کی دنیا میں بے جگہ (misfit) ہو جاؤ گے۔ مگر شاعر نے اس کے بر عکس ایک ایسی بات کہہ دی جس سے مسلمانوں کو صرف فرضی فخر (false pride)کی خوراک ملےگی۔ اور کسی قوم کے لیے فرضی فخر سے زیادہ تباہ کن کوئی دوسری چیز نہیں۔

بیسویں صدی میں پرنٹنگ پریس آیا اور آزادی کا ماحول قائم ہوا۔ ان حالات میں مسلمانوں کے اندر اسلام کے نام پر بڑی بڑی تحریکیں اٹھیں۔ ان تمام تحریکوں کا مشترک پہلو یہ تھا کہ ہر ایک نے کسی نہ کسی اعتبار سے مسلمانوں کو فخر کی غذا دی۔ ہمارا دین سب سے افضل، ہمارا نبی سب سے افضل، ہمارا قرآن سب سے افضل، ہماری امت سب سے افضل، ہماری تاریخ سب سے افضل، ہمارا کلچر سب سے افضل، وغیرہ۔ یہی بیسویں صدی کی تمام مسلم تحریکوں کا مشترک خلاصہ تھا۔ مذہبی رہنما اور سیکولر رہنما دونوں یکساں طور پر اس میں شریک تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری مسلم امت، عرب سے عجم تک، فخر پسندی کے ذہن میں مبتلا ہو گئی۔

فخر کوئی سادہ بات نہیں۔ فخر سے برتری کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اور برتری سے کبر (arrogance) کا مزاج، اور کبر تمام اعلیٰ انسانی اوصاف کا قاتل ہے۔ کبر کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر دوسروں کے لیے خیر خواہی کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کبر سے تعلم (learning) کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے۔ کبر سے ایڈجسٹمنٹ کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے۔ کبر سے حقیقت پسندی کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے ، وغیرہ۔ کبر ہر قسم کی مثبت صفات کا قاتل ہے۔ اور جس فرد یا قوم کے اندر مثبت صفات نہ ہوں وہ دنیا کے اعتبار سے بھی ناکام ہے اور آخرت کے اعتبار سے بھی ناکام ۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom