غلط نشانے کا مسئلہ
کہاجاتا ہے کہ آج کی دنیا میں ہر جگہ اسلام اور مسلمانوں کے حق میں حالات سازگار نہیں ہیں، خواہ امریکا ہویا یورپ، ایشیا ہویا افریقہ — یہ بلاشبہ ایک غلط اندازہ ہے۔ یہ غلط اندازہ اس لیے پیدا ہواہے کہ امت مسلمہ کا نشانہ یہ سمجھ لیا گیا کہ ساری دنیا میں اسلام کا سیاسی غلبہ قائم کیا جائے ۔ یہ غلط نشانہ ہے، اور اسی غلط نشانے کی وجہ سے مسلمان ہر ملک میں اجنبی کی طرح ہو گئے ہیں۔ اس غلط نشانے کو ایک لفظ میں سیاسی نشانہ کہہ سکتے ہیں۔
نشانے عملی طور پر دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک ہے، موجود سسٹم کو بدلنا (to bring about change in the existing system) ۔اس کے مقابلے میں دوسرا نشانہ ہے، پرا من انداز میں لوگوں کو خدا کے منصوبۂ تخلیق سے باخبر کرنا۔ اگر سسٹم بدلنے کو نشانہ بنایا جائے تو اس سے ایک فریق اور دوسرا فریق ایک دوسرے کے حریف بن جاتے ہیں، اور اس کا لازمی نتیجہ ٹکراؤ کی صورت میں نکلتا ہے، یعنی کسی قابض طاقت سے ٹکرانا۔ اس قسم کا ٹکراؤ لازمی طور پر ری ایکشن پیدا کرتا ہے، اور پھر ری ایکشن، چین ری ایکشن (chain reaction) میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس طرح کوئی نظریہ جو سسٹم کو بدلنے یا کسی طاقت سے مزاحمت پر مبنی ہو، وہ ہمیشہ باعتبار نتیجہ ٹکراؤ کی صورت اختیار کرلے گا۔ یہی وہ ٹکراؤ ہے، جو اپنے نتیجے کے اعتبار سے شکایت ، منفی سوچ اور تشدد کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔
اس کے برعکس، انسانوں کو خدائی پیغام سے باخبر کرنےکا عمل کامل طور پر ایک پرامن اور بے مسئلہ کام ہے۔ کیوں کہ یہ فکری تبادلہ کی نوعیت کا ایک کام ہے۔اس عمل کے نتیجے میں جو مثبت اثرات پیدا ہوتے ہیں ، وہ ہیں : رواداری، امن، باہمی خیر خواہی، پر امن ڈسکشن، اور غلط فہمی و اجنبیت کا خاتمہ۔ یہ ایک ایسا کام ہے، جو اپنے آغاز میں بھی پر امن ہے، اور اپنے انجام میں بھی پر امن۔ اس کے ذریعہ کشیدگی کا ماحول ختم ہوتا ہے، اور پرامن تعلقات کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ یہ ہر فرد کے لیے خوش گوار تجربہ ہے۔ اس کے برعکس، انسانی تاریخ کا مشاہدہ ہے کہ جب بھی سسٹم میں تبدیلی کو نشانہ بنایا گیا تو اس کے اثرات پورے معاشرے پر مرتب ہوئے، اور ہر فرد کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔