ڈائری 1986

6جولائی 1986

جناب سکندر بخت صاحب (پیدائش 1918ء)تشریف لائے۔ مسلمانوں میں وہ عام طور پر بدنام ہیں۔ مگر گفتگو سے اندازہ ہوا کہ ان کے اندر مسلم ملت کا درد ہے اور وہ مسلمانوں کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ (2004 میں ان کا انتقال ہو گیا)

سکندر بخت صاحب نوجوانی کی عمر سے سیاست میں رہے ہیں۔ انہوں نے مسٹر محمد علی جناح (1876-1948)کا ایک واقعہ بتایا جن کو مسلمانوں نے قائد اعظم بنایا تھا۔ کسی مقام پر مسلم لیگ کا اجلاس تھا۔ مسٹر جناح وہاں تقریر کرنے کے لیے گئے۔انہوں نے دیکھا کہ مسلم عوام کافی تعداد میں جمع ہیں، مگر اخبار کے نمائندے نظر نہیں آئے۔ مسٹر جناح نے اجتماع کے منتظمین سے کہا

Where are the pressmen? Do you think I came here to address these fools.

اخباری نمائندے کہاں ہیں؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں ان بے وقوفوں کو خطاب کرنے کے لیے یہاں آیا ہوں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ مسٹر جناح مسلمانوں کو حقیر سمجھتے تھے۔ اس کے باوجود مسٹر جناح کو مسلمانوں میں زبردست مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کی وجہ صرف ایک تھی۔ اور وہ یہ کہ انہوں نے مسلمانوں کو وہ سیاسی خوراک دی جو اس ملک کے مسلمانوں کو سب سے زیادہ مرغوب ہے، یعنی قومی فخر اور اینٹی نان مسلم جذبات کو فیڈ کرنا۔

7جولائی 1986

قفہ کی مشہور کتاب ہے جس کا نام شامی (یا فتاویٰ شامیہ)ہے۔ یہ علامہ ابن عابدین شامی کی طرف منسوب ہے۔شامی کا اصل نام ’’رد المحتار علی الدر المختار‘‘  ہے۔ رد المحتار حاشیہ ہے در مختار کا اور درمختار شرح ہے تنویر الابصار کی۔

یعنی تنویر الابصار متن، در مختار شرح اور رد المحتار حاشیہ درمختار کا۔

تنویر الابصار کے مصنف کا نام محمد بن عبداللہ تمر تاشی (939-1004ھ) ہے۔در مختار کے مصنف کا نام محمد بن علی حصکفی (1025-1088ھ) ہے اور رد المختار کے مصنف محمد امین بن سید شریف عمر (علامہ ابن عابدین شامی،1198-1252ھ) ہیں۔

بعد کے زمانے میں مسلمانوں میں ایک عجیب علمی رواج پیدا ہوا، جس کو شرح کہا جاتا ہے۔ یعنی کسی کتاب کی شرح اور پھر اس شرح کی شرح۔اس طریق تصنیف کا دو واضح نقصان ہے۔

ایک یہ کہ بعض کتابوں کا متن، اگر عقیدۃً نہیں تو عملاً مقدس قرار دیا گیا۔ ان متون کےمتعلق شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ سمجھ لیا گیا کہ ان میں جو کچھ درج ہے، وہ بہرحال مستند ہے۔اب ہمیں جو کچھ کرنا ہے وہ صرف یہ کہ اس کو پڑھ کر اس کی شرح کریں۔

اس کا دوسرا نقصان ذہنی جمود کی شکل میں امت کو ملا۔تخلیقی فکر (original thinking) ختم ہوگئی۔صرف تقلیدی فکر علمی دنیا میں باقی رہ گئی۔

عین اس زمانہ میں جب کہ مغربی دنیا اپنی تحقیقی فکر کے ذریعہ سے عالمی سیادت حاصل کر رہی تھی، مسلمان اپنی تقلیدی فکر کے نتیجہ میں پستی میں پڑے رہے۔اور صدیوں کے لیے انسانی قافلہ سے پیچھے ہو گئے۔

8جولائی 1986

ایک مسلمان صنعت کار ملاقات کے لیے تشریف لائے۔میں ان کو پچھلے چالیس سال سے جانتا ہوں۔انہوں نے 1945 میں اتر پردیش میں ایک معمولی کام سے اپنی زندگی کا آغاز کیا۔ ایک دستکاری کا کام تھا، جس کے تنہا مزدور وہ خود تھے۔ان کی اس دستکاری کے 99 فیصد خریدار ہندو تھے۔

اس دوران ان کی ترقی ہوتی رہی۔ وہ پہلے پیدل چلتے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے ایک سائیکل خریدی۔ اس کےبعد انہوں نے شہر میں ایک ذاتی مکان بنایا، جس کے سامنے ایک جیپ کھڑی ہوئی نظر آنے لگی۔ اس کے بعد وہ وقت آیا جب کہ وہ کاروں کے ایک دستہ کے مالک ہو گئے۔اب وہ ایک لمیٹڈ کمپنی کے چیئر مین ہیں۔ وہ ہوائی جہازوں پر سفر کرتے ہیں۔مجھ سے ملنے کے لیے وہ نئی مرسڈیز کار میں تشریف لائے تھے۔

ان کی یہ ترقیاں بلا شبہ میرے لیے خوشی کا باعث ہیں۔مگر میں یہاں ان کے ایک تضاد کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ان کا کاروبار زیادہ تر حکومت کے محکموں سے ہے۔ہندوستان کی کئی ریاستوں میں ان کے سرکاری ٹھیکے چل رہے ہیں۔اس طرح ان کا کاروباری تعلق جن لوگوں سے ہے ان میں 99فیصد ہندو ہوتے ہیں۔ان ہندوؤں سےوہ بہترین تعلقات بنائے ہوئے ہیں۔ ان سے میٹھی گفتگو کرنا، ان کو تحفے دینا، ان کی ضرورتوں میں کام آنا، ان کو خوش کرنے کا ہر طرح سے جتن کرنا، وغیرہ۔ مگر دوسری طرف ان کا یہ حال ہے کہ جب بھی مجھ سے ملتے ہیں تو کسی نہ کسی بہانے ہندو قوم اور ہندو حکومت کی برائی کرتے ہیں۔اپنے معاملہ دار ہندوؤں کے لیے وہ تالیف قلب کے اصول پر عامل ہیں۔مگر دوسرے ہندوؤں کے لیے وہ پوری طرح مسلم قوم پرست بنے ہوئے ہیں۔

یہی ہندوستان کے تقریباً تمام مسلمانوں کا طریقہ ہے۔ اس ملک کا ہر مسلمان ، خواہ وہ اصاغر میں سے ہو یا اکابر میں سے،ڈبل اسٹینڈرڈ کا کیس بنا ہوا ہے۔ وہ اپنےصاحب معاملہ ہندو کے لیے کچھ اور ہے اور دوسرے ہندوؤں کے لیے کچھ اور۔

کیسے عجیب ہیں وہ مسلمان جن کو خود اپنی ہی زندگی کے تجربے سے سبق نہیں ملتا۔

9جولائی 1986

7جولائی 1986 کے تمام اخبارات کی شاہ سرخی صرف ایک تھی

 ’’جگ جیون رام کاانتقال ہو گیا‘‘

جگ جیون رام (1908-1986) ڈاکٹر امبیڈکر کے بعد دوسرے سب سے بڑے ہریجن لیڈر تھے۔ان کو جدید ہندوستان میں عظیم ترین سیاست دانوں کی فہرست میں جگہ ملی۔مگر جنتا حکومت کے بعد جب ان کا زوال ہوا تو پھر وہ دوبارہ اٹھ نہ سکے۔ دہلی کے ایک انگریزی اخبار نے ان کی موت پر اپنے اداریہ میں لکھا:

In the death of Jagjiwan Ram the country lost one of the last leading representatives of the pre-independnce era. Babuji had a messianic sense of mission wich he shared with our greats like Nehru and Mrs. Gandhi. But the great reaper precluded his return to glory. (The Hindustan Times, July 8, 1986)

جگ جیون رام کی موت نے ملک کو قبل از آزادی دور کے بڑے نمائندوں میں سے ایک سے محروم کر دیا۔ بابو جی (جگ جیون رام) مقصد کا  ایک مسیحائی شعور رکھتے تھے۔وہ نہرو اور مسز گاندھی جیسی بڑی شخصیتوں کے رفیق رہے۔مگر موت ان کے لیے مانع بن گئی کہ وہ دوبارہ اپنی عظمت کی طرف واپس ہو سکیں۔

اخبار کے ایڈیٹر کی نظر میں بظاہر صرف ’’جگ جیون رام‘‘ جیسے لوگ ہیں ، جن کے لیے موت ان کی آخری عظمت تک پہنچنے میں رکاوٹ بن گئی۔ لیکن ایڈیٹر اگر موت کے اس پار تک دیکھ سکتا تو اس کو نظر آتا کہ بہت سے وہ دوسرے لوگ بھی اپنی آخری عظمت سے یکسر محروم ہیں، جن کا نام اخبار کے ایڈیٹر نے عظمت کی چوٹی تک پہنچنے والے انسانوں کی فہرست میں نمایاں طور پر لکھ رکھاہے۔

10جولائی 1986

ایک عرب ڈپلومیٹ ہندوستان سے واپس جانےلگے تو روانگی سے ایک دن پہلے وہ ہمارے دفتر میں آئے۔ ان کے ساتھ ان کی بڑی گاڑی میں بہت سی کتابیں بھی لدی ہوئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ میری ذاتی لائبریری کی کتابیں ہیں۔ دہلی کے زمانہ ٔ قیام میں، میں نے ان کو اپنی رہائش گاہ پر جمع کیا تھا۔ اب ہندوستان چھوڑتے ہوئے میں ان کتابوں کو اسلامی مرکز کے کتب خانے کے حوالے کر رہا ہوں۔

یہ کتابیں سب کی سب دو زبانوں میں تھیں، عربی اور انگریزی۔ایک کتاب گاندھی جی کی مشہور سوانح عمری تھی

The Life of Mahatma Gandhi by Louis Fischer

میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کی کتابوں کے ذخیرے میں مہاتما گاندھی کی لائف بھی ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ مہاتما گاندھی کے عقیدت مندوں میں سے ہیں؟۔ وہ یہ سوال سن کر مسکرائے۔انہوں نے کہا کہ اس کا یہ مطلب نہیں۔یہ کتابیں میرے شخصی ذوق سے زیادہ میرے ڈپلومیٹ ہونے کی حیثیت سے تعلق رکھتی ہیں۔کسی ملک کا ڈپلومیٹ جب دوسرے ملک میں جاتا ہے تو اس سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ اس ملک کے حالات کو جانے گا اور وہاں کی ممتاز شخصیتوں سے باخبر ہوگا۔ یہی وہ چیز ہے، جس کی بنا پر میں نے ہندوستان میں آنے کے بعد مہاتما گاندھی کو پڑھا، جن کو  Father of the Nation  کہا جاتا ہے۔

اکثر غلط فہمیاں اس لیے پیدا ہوتی ہیں کہ آدمی پوری بات جانے بغیر رائے قائم کر لیتا ہے۔ مذکورہ واقعہ کو اگر ایک شخص بلا تحقیق دیکھے تو وہ یہ رائے قائم کر لے گا کہ عرب ڈپلومیٹ مہاتماگاندھی سے متاثر تھا۔ مگر تحقیق نے بتایا کہ اس کا تعلق ڈپلومیٹ کی سرکاری ڈیوٹی سے تھا، نہ کہ اس کے ذاتی ذوق سے۔

11جولائی 1986

مہاتما گاندھی ہندوستان کے عوام کو انگریز کے خلاف اٹھانا چاہتے تھے۔اس مقصد کے لیے انہیں بہت سی روایات توڑ دینی پڑیں۔طالب علموں کو انہوں نے اکسایا کہ وہ تعلیم چھوڑ کر سڑکوں پر آجائیں۔مزدوروں کو انہوں نے اکسایا کہ وہ ہڑتال کر کے کاروبار کو مفلوج کر دیں۔کسانوں کو انہوں نے اکسایا کہ وہ زمینداروں کی بڑائی تسلیم نہ کریں۔ ٹیکس دینے والوں کو انہوں نے اکسایا کہ وہ گورنمنٹ کو ٹیکس نہ دیں۔مہاتما گاندھی نے عوام کی طاقت سے آزادی حاصل کر لی۔مگر یہ آزادی روایات کو توڑ کر حاصل ہوئی تھی۔

روایات کو توڑنے کا یہ سلسلہ آزادی کے بعد مزید شدت کےساتھ جاری رہا۔ ہر شعبہ میں جلد ترقی کے جوش میں روایات توڑی جاتی رہیں۔حتیٰ کہ اس ملک میں روایات کا تسلسل ختم ہو گیا۔ اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ دہلی کے ڈسٹرکٹ جج مسٹر مہیش چندر کو ترقی دے کر دہلی ہائی کورٹ کا جج بنایا گیا ہے۔یہ تقرری روایات کو توڑ کر ہوئی ہے۔انگریزوں کے زمانے سے یہ روایت چلی آ رہی تھی کہ سینیارٹی کی بنیاد پر ترقیاں دی جاتی تھیں۔ دہلی میں مسٹر مہیش چندر کے مقابلہ میں دو سینئر جج تھے جو ترقی کے اولاً مستحق تھے، مگر ان کو چھوڑ کر مسٹر مہیش چندر کو ترقی دے دی گئی۔

یہی تمام انقلابی تحریکوں کا حال ہوا ہے۔خواہ وہ روس کی کمیونسٹ تحریک ہو یا ہندوستان کی گاندھیائی تحریک یا ایران کی خمینی تحریک۔ ہر ایک نے یہی کیا کہ روایات کو توڑ کر انقلاب لے آئے، اور روایات کو توڑ کر نیا سماج بنانا چاہا۔نتیجہ یہ ہے کہ بلا استثنا ہر ایک کو اپنے مقصد میں ناکامی ہوئی۔ انسانی سماج ہمیشہ روایات کے زور پر عمل کرتا ہے اور روایات کے زور کو یہ تحریکیں پہلے ہی ختم کر چکی تھیں۔

اس عموم میں صرف ایک نمایاں استثنا ہے اور وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ پیغمبر اسلام تاریخ کی واحد شخصیت ہیں جنہوں نے روایات کو توڑے بغیر انقلاب برپا کیا اور روایات کو توڑے بغیر اپنی مطلوبہ اصلاحات رائج کیں۔ آپ کی زندگی کا تنہا یہی پہلو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ آپ خدا کے رسول تھے۔

12 جولائی 1986

امریکن رائٹر امبروز بیرس(Ambrose Gwinnett Bierce, 1842-1914) کا ایک قول ہے:

Philosophy is a route of the many roads leading from nowhere to nothing.

فلسفہ بہت سے راستوں کا ایک سفر ہے جو کہیں سے نہ شروع ہوتا اور نہ کہیں ختم ہوتا ہے۔

فلسفہ کو قدیم زمانے میں علوم کی ملکہ (Queen of Arts) کہا جاتا تھا۔پچھلے 5000 سال کے اندر اعلیٰ ترین دماغوں نے فلسفہ کے میدان میں اپنی محنتیں صرف کی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ فلسفہ کی تحقیق پر جتنا کام ہوا ہے، اتنا کسی بھی دوسرے شعبہ علم میں نہیں ہوا ۔ اس کے باوجود فلسفہ ہی واحد علمی شعبہ ہے جس کا کوئی مثبت حاصل نہیں۔ فلسفہ نے ذہنی الجھاؤ اور پُر پیچ بحثوں کے سوا انسان کو کچھ اور نہیں دیا۔ حتیٰ کہ آج تک یہ بات بھی واضح نہ ہو سکی کہ فلسفہ کا آغاز کیا ہے اور اس کا  انتہا کیا۔

فلسفہ کی اس ناکامی کی وجہ صرف ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ فلسفہ ایک ایسے میدان میں کام کر رہا ہے جہاں کوئی حقیقی کامیابی حاصل کرنا اس کے لیے ممکن ہی نہیں۔

فلسفہ کا خلاصہ ایک لفظ میں یہ ہےآخری حقیقت(ulltimate reality) کو عقل کے ذریعہ دریافت کرنا۔چونکہ انسان کی عقل محدود ہے، وہ کلی حقیقت کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ انسان اپنی محدودیتوں (limitations) کی وجہ سے تنہا حقیقت اعلیٰ کو دریافت نہیں کر سکتا۔یہی واحد وجہ ہے جس کی بنا پر فلسفہ اپنی کوششوں میں ناکام رہا۔

اس محدودیت کی بنا پر انسان کے لیے اس دنیا میں صرف دو optionsہیں۔یا تو وہ جزئی علم پر قناعت کرے جیسا کہ سائنس نے موجودہ زمانہ میں کیا ہے یا وہ الہام سے مدد لے کر کلی حقیقت تک پہنچے۔ ان دو کے سوا تیسری کوئی صورت اگر ہے تو وہ صرف تشکیک ہے اور تشکیک عملی طور پر ممکن نہیں۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom