حکمت کیا ہے
قرآن میں الله كے رسول كے بارے ميں آیا ہے کہ وه کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں (البقرہ، 2:151)۔ لیکن حکمت ایسی چیز نہیں جو محض الفاظ کے ذریعے مکمل طور پر منتقل کی جا سکے، جیسے کہ قرآن کو الفاظ میں نازل کیا گیا۔ حکمت کو الفاظ میں قید نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس کا تعلق زندگی کے مختلف حالات سے ہوتا ہے۔ حكمت ايسي چيز هے جسے عملی تجربات اور حالات كے تحت اخذ کرنا پڑتا ہے، اور جيسا كه معلوم هے وقت اور حالات کبھی یکساں نہیں رہتے، اس لیے ہر دور میں گهري بصیرت کے ذريعے حکمت کو دریافت کرنا ہوتا ہے۔
بدلتے هوئے اور ناموافق حالات میں کسی اقدام کو کامیابی سے ہمکنار کرنا— یہی دراصل حکمت ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا گہرامطالعہ کیا جائے، اوراس ميں بصیرت کے ساتھ پیغمبرانہ حکمت کو دریافت کیا جائے۔مثلاً آپ کی بعثت کے وقت خانہ کعبہ میں بت رکھے ہوئے تھے، لیکن اس معاملے میں آپ نے کوئی لفظی ہدایت نہیں دی ۔ اس کے بجائے، آپ نے اپنے عمل سے رہنمائی کی۔لہٰذا ہمیں بھی غور و فکر کے ذریعے آپ کے طرزِ عمل سے حکمتیں اخذ کرنی ہوں گی۔
فقہا نے فقہ کو صرف مسائلِ احکام تک محدود کر دیا، مزید یہ کہ فرضی مسائل کا ایک انبار کھڑا کر دیا، مگر یہ ایک ایسی روش تھی، جس کو ان سے پہلے صحابہ کرام اور تابعین نے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا تھا۔اصل فقہ اُن حقیقی حالات میں پوشیدہ ہے جن کا سامنا پیغمبر اسلام ﷺ کو ہوا۔ اگر ان پر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو حکمت کے بہت سے نئے گوشے کھل کر سامنے آتے ہیں،جن پر غور و فکر کرکے ہم انہیں موجودہ حالات کے مطابق اختیار کر سکتے ہیں۔ (مولانا وحیدالدین خان صاحب سے گفتگو پر مبنی )