شاک ٹریٹمنٹ
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:
إِذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلْوُونَ عَلَى أَحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ فَأَثَابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِكَيْلَا تَحْزَنُوا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَا أَصَابَكُمْ وَاللهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (3:153)۔ یعنی، جب تم لوگ بھاگے جا رہے تھے اور مڑکر بھی کسی کو نہ دیکھتے تھے، اور رسول تم کو تمہارے پیچھے سے پکار رہا تھا۔ پھر اللہ نے تم کو غم پر غم دیا تاکہ تم رنجیدہ نہ ہو اس چیز پر جو تمہارے ہاتھ سے چوک گئی اور نہ اس مصیبت پر جو تم پر پڑے۔ اور اللہ با خبر ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔
یہ آیت غزوہ احد (3 ھ) سے تعلق رکھتی ہے۔ اہل ایمان کو اس جنگ میں غم کا شدید تجربہ ہوا۔ اس وقت یہ تعلیم دی گئی کہ جب تمہارے ساتھ غم کا واقعہ پیش آئے اور تم کو کسی چیز کے کھونے کا تجربہ ہو تو تم اس پر رنج اور افسوس نہ کرو۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ صبر کی تعلیم ہے۔ اس وقت پیغمبر موجود تھا، اور قرآن اتر رہا تھا، تو لفظی تعلیم کافی تھی، پھر غم کا واقعہ کیوں پیش آیا۔
اس کا سبب یہ ہے کہ کھوئے جانے پر غم نہ کرنا، یہ کوئی سادہ بات نہیں ہے۔ کھوئے جانے پر غم نہ کرنا، اس وقت ہوتا ہے، جب کہ آدمی پر ایسے سخت تجربات گزریں، جو اس کی کنڈیشننگ کو توڑ کر اس کے اندر ڈی کنڈیشنڈ ذہن (deconditioned mind) پیدا کردیں۔ کنڈیشننگ سے خالی آدمی ہی یہ کرسکتا ہے کہ اس کو مادی قسم کا صدمہ پیش آئے، لیکن وہ غیر متاثر سوچ پر قائم رہے۔
یہ صفت ایک تربیت یافتہ ذہن کا ظاہرہ ہے، اور تربیت یافتہ ذہن صرف تجربات کے کورس سے گزرنے کے بعد تیار ہوتا ہے۔ غم کے واقعہ پر حزن اور مایوسی کا پیدا نہ ہونا ایک تربیت یافتہ انسان کی خصوصیت ہے۔ اگر اس بات کی صرف لفظی تعلیم دی جائے تو تربیت کا فائدہ حاصل نہیں ہوگا، اس لیے انسان کو صدمہ (shock)کے کورس سے گزاراجاتا ہے، تاکہ اس کی ڈی کنڈیشننگ ہو، اور نفسیاتی اعتبار سے وہ اعلیٰ صفت کا حامل بن سکے۔