سچائي كي دريافت
4 جون 2019 كو ميں نے ايك خواب ديكھا۔اس خواب ميں ميں نے ديكھا كه ميں مولانا نظام الدين اصلاحي اعظمي سے بات كررها هوں۔ ان كاتعليمي ذهن پهلے فراهي اسكول ميں بنا۔ اس كے بعد وه اسلام كي سياسي تعبير سے متاثر هوئے۔ ان دو تحريكات كے درميان ان كا فكري ڈھانچه بنا۔ گفتگو ميں ان كي بات مجھے ياد نهيں۔ مگر ميں نے ان سے جو كها وه يه تھا كه پچھلے هزاروں سال كے درميان انسان كي كاوشوں سے افكار كا ايك جنگل تيا رهوا۔ آج جو انسان پيدا هوتاهے وه افكار كے اس جنگل كے درميان پيدا هوتا هے۔ سچائي اگرچه بذات خود ايك محفوظ حقيقت هے۔ ليكن وه افکاركے جنگل ميں اجنبی ہو چکی هے۔ يهاں تك كه افکار کی کثرت نے فتنهٔ دُہَیماء یعنی مکمل فکری کنفیوزن (utter intellectual confusion) كي صورت اختيار كرلي هے۔
اب سچائي كو پانے كے ليے نه كلام عرب كي مهارت كافي هے، اور نه كتب خانه ميں موجود روايتي كتابوں كا مطالعه۔ بلكه انسان كو اپني تلاش كا آغاز ’’غار حرا‘‘ سے كرناهے، دوسرے لفظوں ميں يه كه كامل معنوں ميں اپنے آپ كو حق كا طالب (truth seeker) بنانا هے۔
موجوده زمانه ميں سائنٹفك ٹمپر (scientific temper) يا ايز اٹ از تھنكنگ حق كے مسافر كے ليے تائيدي علم كي حيثيت ركھتا هے۔ حديث ميں اس كو أَرِنَا الْأَشْيَاءَ كَمَا هِيَ(تفسیر الرازی، جلد1، صفحہ119)كے الفاظ سے تعبير كيا گيا هے۔ يعني چيزوں كو ويسا هي ديكھنا جيساكه في الواقع وه هيں۔ آدمي جب تك افکاركے جنگل سے نكل كر ايز اٹ از تھنكنگ كي صلاحيت پيدا نه كرے، وه سچائي كي دريافت تك نهيں پهنچ سكتا۔ایز اٹ از تھنکنگ (as it is thinking) نام ہے مبنی بر حقیقت سوچ کا ، جو مکمل ڈی کنڈیشننگ کے بعد آدمی کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ یہ بلاشبہ ایک مشکل کام ہے۔ڈی کنڈیشننگ ہر انسان کی ایک لازمی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر انسان کی شخصیت ایک ناقص شخصیت بنی رہے گی، وہ کبھی کامل شخصیت کا درجہ نہ پاسکے گی۔